قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ ۚ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ
بے شک ان لوگوں نے خسارہ اٹھایا جنھوں نے اپنی اولاد کو بے وقوفی سے کچھ جانے بغیر قتل کیا اور اللہ نے انھیں جو کچھ دیا تھا اسے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے حرام ٹھہرا لیا۔ یقیناً وہ گمراہ ہوگئے اور ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔
[١٤٩] مشرکوں کی اس خود ساختہ شریعت کی ایک ایک دفعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ (١) بتوں اور درباروں کے مجاوروں نے قانون سازی کے جملہ اختیارات خود سنبھال رکھے تھے۔ (٢) وہ اپنی ان اختراعات کو دین کا حصہ بنا دیتے تھے (٣) اور حیلوں بہانوں سے لوگوں سے مال بٹورتے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کو تلف کردیتے تھے (٤) حلال و حرام قرار دینے کے جملہ اختیارات بھی انہیں کے پاس تھے (٥) وہی قتل اولاد کے مجرم تھے۔ غرض یہ کہ شرک کی کوئی قسم باقی نہ رہ گئی تھی جو انہوں نے اختیار نہ کی ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کے جرائم بتا کر مسلمانوں کو متنبہ فرماتے ہیں کہ ایسے سر سے پاؤں تک شرک میں پھنسے ہوئے لوگوں کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے جن اسلاف اور بزرگوں نے اللہ پر اس طرح کے جھوٹ گھڑ لیے تھے انہیں ہدایت یافتہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ جو خود بھی گمراہ ہوئے اور آنے والی نسلوں کو بھی گمراہی کی راہ پر ڈال دیا۔