وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور انھوں نے اللہ کے لیے ان چیزوں میں سے جو اس نے کھیتی اور چوپاؤں میں سے پیدا کی ہیں، ایک حصہ مقرر کیا، پس انھوں نے کہا یہ اللہ کے لیے ہے، ان کے خیال کے مطابق اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے، پھر جو ان کے شرکا کے لیے ہے سو وہ اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو اللہ کے لیے ہے سو وہ ان کے شریکوں کی طرف پہنچ جاتا ہے۔ برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔
[١٤٣] صدقہ وخیرات میں مشرکوں کی ناانصافیاں :۔ مشرکین نے صدقہ و خیرات کرتے وقت اللہ کا حصہ الگ مقرر کر رکھا تھا اور اپنے بتوں یا دیوی دیوتاؤں کا الگ۔ ان کا پہلا ظلم تو یہ تھا کہ اس بات کے اعتراف کے باوجود کہ ان کی کھیتی اور مویشیوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کا بھی حصہ مقرر کردیا۔ اور دوسرا ظلم یہ تھا کہ وہ اپنے وہم و گمان کی بنا پر اپنے شارع خود ہی بن بیٹھے تھے اور ان کا زعم باطل یہ تھا کہ ہم اللہ کا حصہ تو اس لیے نکالتے ہیں کہ ہماری کھیتی اور مویشیوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے اور دوسرے معبودوں یعنی دیوی دیوتاؤں، فرشتوں، ستاروں کی ارواح اور پہلے بزرگوں کی روحوں کا حصہ اس لیے نکالتے ہیں کہ جو کچھ انہیں مل رہا ہے انہی کی نظر کرم کی وجہ سے مل رہا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ انہیں اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھ کر ان کا حصہ نکالتے تھے اور یہی چیز اصل شرک ہے۔ اس شکل میں اگر اللہ کے نام پر کچھ دیا بھی جائے تو قطعاً اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں اپنے حصہ داروں کی نسبت اپنا حصہ لینے سے بے نیاز ہوں۔ جس شخص نے ایسا عمل کیا جس نے میرے ساتھ غیر کو حصہ دار بنایا تو میں اس صاحب عمل اور اس عمل دونوں کو ہی چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الزہد۔ باب تحریم الربا۔ بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب قول اللہ تعالیٰ لا یسئلون الناس الحافا) [١٤٤] تیسرا ظلم وہ مشرک یہ کرتے تھے کہ اگر معبودوں کے حصہ میں کسی طرح کمی واقع ہوجاتی، فصل کم پیدا ہوتی یا طوفان سے تباہ ہوجاتی تو یہ کمی اللہ کے حصہ سے پوری کردیا کرتے تھے اور اگر اللہ کے حصہ میں کمی واقع ہوتی تو اسے معبودوں کے حصہ سے پورا نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اللہ کا حصہ کتنا مقرر کر رکھا تھا اور اپنے معبودوں کا کتنا ؟ یہ تفصیل کہیں نہیں ملتی۔ یہ بس ان کی اپنی ہی قیاس آرائیوں کے مطابق طے کیا گیا تھا۔ اللہ کا حصہ تو وہ فقیروں یتیموں وغیرہ میں تقسیم کردیتے اور معبودوں کا حصہ مندروں کے پجاریوں یا سرپرستوں کو۔ اور بتوں کے سامنے جو نذر و نیاز رکھی جاتی وہ بھی بالواسطہ ان پجاریوں کو ہی پہنچ جاتی تھی۔ ان مہنتوں اور پجاریوں نے ہی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر مشرکین کو یہ پٹی پڑھائی تھی کہ اگر اللہ کے حصہ میں کمی واقع ہوجائے تو کوئی پروا نہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی ہے وہ اپنے خزانوں سے یہ کمی پوری کرسکتا ہے، مگر ان دیوی دیوتاؤں کے حصہ میں کسی طرح کمی واقع نہ ہونی چاہیے گویا اس مشرکانہ رسم میں وہ لوگ تین طرح کے جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ (١) مالی عبادت میں اللہ کے ساتھ اپنے معبودوں کو شریک بنانا (٢) اللہ کا الگ اور معبودوں کا الگ حصہ مقرر کرنا۔ اس بات میں پروہتوں کا یہ شرک تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو شارع کی حیثیت دے رکھی تھی اور عام لوگوں کا شرک یہ تھا کہ وہ ان کی اس بات کو مذہبی طور پر تسلیم کرتے تھے۔ (٣) اس تقسیم میں بھی اللہ کے حق میں ناانصافی کرتے تھے اور اس جرم میں پروہت اور عام مشرک سب شریک تھے۔