قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
کہہ دے اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کرو، بے شک میں (بھی) عمل کرنے والا ہوں، تو تم عنقریب جان لو گے وہ کون ہے جس کے لیے اس گھر کا اچھا انجام ہوتا ہے۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے۔
[١٤٢] یعنی اگر تم اپنی غلط روی سے باز نہیں آتے تو اس پر جمے رہو اور مجھے اپنی راہ پر چلنے دو۔ عنقریب ہم سب کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ انجام ہمارا بہتر رہا یا تمہارا۔ بہرحال یہ بات تو یقینی ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ سیدنا لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ ’’بیٹے! کبھی شرک نہ کرنا کیونکہ شرک ہی سب سے بڑا ظلم ہے۔‘‘اور یہاں ظلم سے شرک اس لیے مراد لیا گیا ہے کہ آئندہ مشرکوں کے بعض افعال و رسومات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔