سورة الانعام - آیت 125

فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کردیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے، اسی طرح اللہ ان لوگوں پر گندگی ڈال دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣٢] انشراح صدر کیا ہے ؟ سینہ کھول دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ فراخدلی کے ساتھ اسلام کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی حقانیت پر اس کا دل مکمل طور پر مطمئن ہوجاتا ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور سینہ میں گھٹن پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی دعوت سنتے ہی اس کے دل میں گھٹن پیدا ہوجاتی ہے وہ اس دعوت کو سمجھنے اور اس میں غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا پھر اس کے اس رویہ سے یہ گھٹن دم بدم بڑھتی جاتی ہے۔ پھر اس کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ حق اس کے دل میں داخل ہی نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اسے اسلام کی کامیابی سے اتنی کوفت ہوتی ہے جیسے وہ بمشکل کسی بلندی یا پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ رہا ہو اور سانس پھولنے کے باوجود وہ بلندی پر چڑھنے کے لیے مجبور ہو۔ [١٣٣] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مقام پر رجس کا ترجمہ شیطان سے کیا ہے اس طرح مطلب یہ ہوگا کہ ہم ایسے شخص پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اسے ایمان لانے کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔ نیز رجس کا معنی ناپاکی بھی ہے اور عذاب بھی۔ ترجمہ میں ناپاکی ہی معنیٰ لکھا گیا ہے اور اگر عذاب ہو تو اس سے مراد ہے کہ دنیا میں اس پر لعنت کا عذاب مسلط کردیا جاتا ہے اور آخرت میں جو عذاب ہوگا وہ سخت تر ہے۔