سورة الانعام - آیت 118

فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے، اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢٢] حلال جانور کو کھانے کی شرائط :۔ کسی حلال جانور کو کھانے کے لیے شریعت نے دو شرائط عائد کی ہیں۔ ایک یہ کہ ذبح کیا جائے اور اس کا خون نکال دیا جائے دوسرے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ علمائے یہود نے مشرکین مکہ کو یہ شرارت سمجھائی کہ مسلمانوں سے پوچھو کہ جو چیز اللہ نے ماری ہو اسے تو تم حرام قرار دیتے ہو اور جو چیز تم خود مارو اسے حلال سمجھتے ہو۔ ایمان لانے کے بعد وحی کی اتباع ضروری ہے خواہ اس حکم کی سمجھ آئے یا نہ آئے :۔ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ جب تم نے بنیادی طور پر دلائل صحیحہ کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت کو تسلیم کرلیا ہے تو اب فروع و جزئیات کی صحت کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔ اگر ہر اصل اور فرع کو قبول کرنا ہمارے ہی عقلی قیاسات پر موقوف ہو تو پھر وحی اور نبوت کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ بالفاظ دیگر ہر شخص ایمان لانے یا نہ لانے کی حد تک تو خودمختار ہے۔ چاہے ایمان لائے یا نہ لائے۔ لیکن جب ایمان لا چکا تو پھر اسے وحی کے تابع رہ کر چلنا ہوگا خواہ اسے شرعی احکام کی علت یا مصلحت سمجھ میں آئے یا نہ آئے تاہم علماء نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ اللہ نے صرف وہ چیزیں حرام کی ہیں جن کا کھانا انسان کی جسمانی یا روحانی صحت کے لئے مضر ہو۔ ذبح کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ خون جسے اللہ نے حرام کردیا ہے جانور کے جسم سے نکل جاتا ہے اور جانور پاک ہوجاتا ہے۔ اگر یہ خون جسم میں رہ جائے تو جسمانی صحت کے لیے مضر ہوتا ہے اور اللہ کا نام لینے کا حکم کھانے میں برکت اور روحانی تربیت کے لیے دیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ذبح پر مشرکوں کا اعتراض اور مردار کھالینا : کافروں کا دستور یہ تھا کہ وہ مرا ہوا جانور تو کھا لیتے ہیں لیکن خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کر کے نہیں کھاتے تھے۔ مرے ہوئے کے متعلق وہ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ اسے اللہ نے مارا ہے لہٰذا اس کا کھانا جائز ہے اور خود ذبح کرنے کو کسی جانور کا خون کرنے کے مترادف سمجھتے تھے خواہ اس پر اللہ کا نام ہی لیا جائے۔ اسی بنا پر یہود نے ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا تھا حالانکہ یہود تو اصل حقیقت سے واقف تھے۔ مگر اسلام دشمنی نے ان دونوں کو ہم نوا بنا دیا تھا۔ یہود کے اس پروپیگنڈے کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی گمراہ کن چال سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے یعنی حلال طریقہ پر ذبح کیا جائے۔ اس کے کھانے میں تمہیں کسی قسم کا تامل نہ ہونا چاہیے اور ان لوگوں کے اس پروپیگنڈہ کا کچھ اثر قبول نہ کرنا چاہیے اس لیے کہ جو اشیاء فی الواقع حرام ہیں ان کے متعلق احکام تمہیں پہلے بتلائے جا چکے ہیں۔