أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور منصف تلاش کروں، حالانکہ اسی نے تمھاری طرف یہ کتاب مفصل نازل کی ہے اور وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی ہے، وہ جانتے ہیں کہ یقیناً یہ تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کی ہوئی ہے، پس تو ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔
[١١٨] اہل کتاب کی ثالثی؟ یہ رسول اللہ کا خطاب مشرکین مکہ کو ہے جنہوں نے کہا تھا کہ یہود اور نصاریٰ دونوں اہل کتاب بھی ہیں اور عالم بھی ہیں لہٰذا آپ ان میں سے کسی کو ثالث تسلیم کرلیں۔ جو ہم میں فیصلہ کر دے کہ ہم میں کون حق پر ہے یا وہ صلح یا سمجھوتہ کی کوئی راہ نکال دیں۔ ان کی اس تجویز کا جواب یہ ہے کہ میرا حکم صرف اللہ تعالیٰ ہے جس نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت کی وہ ساری باتیں آ گئی ہیں جو تورات اور انجیل میں ہیں۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے اپنی کتابوں سے کیا سلوک کیا کن کن آیات کی وہ لفظی اور معنوی تحریف کرچکے ہیں اور کون کون سی آیات کو چھپا رہے ہیں۔ تو کیا میں اللہ کو چھوڑ کر ایسے غلط کار لوگوں کو اپنا منصف تسلیم کروں؟ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ [١١٩] الذین سے مراد اہل کتاب بھی ہو سکتے ہیں اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کو اس بات میں ہرگز شک نہ ہونا چاہیے کہ اہل کتاب یہ بات خوب سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور حقائق پر مبنی ہے اگرچہ زبان سے اقرار نہ کریں۔ اور الذین سے مراد مسلمان بھی ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت قرآن کو ہدایت کا سرچشمہ، منزل من اللہ اور ٹھیک ٹھیک امر حق کی نشاندہی کرنے والی کتاب سمجھتی ہے۔