وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ
اور وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا، پھر ایک ٹھہرنے کی جگہ اور ایک سونپے جانے کی جگہ ہے۔ بے شک ہم نے ان لوگوں کے لیے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں جو سمجھتے ہیں۔
[١٠١] وجود باری تعالیٰ پر دلائل :۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کر کے اس میں اپنی روح سے پھونکا تو اس میں عقل، قوت تمیز اور ارادہ و اختیار پیدا کیا جو دوسرے جانداروں اور جانوروں میں نہیں پایا جاتا۔ پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا پھر تناسل و توالد کے ذریعہ لاتعداد مرد اور عورت پیدا کردیئے یہ بھی اللہ ہی کا کارنامہ ہے۔ کوئی انسان یا کوئی دوسری ہستی ایک آدمی بھی نہیں بنا سکتی پھر ان مردوں اور عورتوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار اور ایک سپردگی کا مقام ہے۔ اکثر علماء کے خیال کے مطابق جائے قرار سے مراد روئے زمین پر اس کی زندگی کی مدت ہے اور مستودع سے مراد اس کی قبر ہے یا وہ جگہ جہاں سے مرنے کے بعد ٹھکانے لگایا جاتا ہے یہ دونوں باتیں اٹل حقیقت ہونے کے باوجود کسی کو معلوم نہیں کہ وہ روئے زمین پر کتنا عرصہ رہے گا اور کہاں اور کب مرے گا اور کہاں دفن ہوگا ؟ بعض علماء کے نزدیک ان سے مراد زندگی اور موت کے چاروں مراحل ہیں ایک مرحلہ اگر مستقر ہے تو دوسرا مرحلہ اس کا مستودع ہے علیٰ ہذا القیاس۔