فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
صبح کو پھاڑ نکالنے والا ہے اور اس نے رات کو آرام اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا۔ یہ اس زبردست غالب، سب کچھ جاننے والے کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔
[٩٩] اس آیت اور اس سے اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایسی آیات یا نشانیاں بیان فرمائی ہیں جنہیں اس خالق و مالک اور قادر مطلق کے سوا کوئی بھی وجود میں نہیں لا سکتا اور ان میں ایک غور و فکر کرنے والے انسان کے لیے وجود باری تعالیٰ پر واضح دلائل مل جاتے ہیں اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے مثلاً ایک یہ کہ گردش لیل و نہار کا نظام اس لیے بنایا کہ تم دن کو اپنے کام کاج کرسکو اور رات کو اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے آرام کرسکو۔ کام کاج کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے تو اس نے رات کے ختم ہوتے ہی روشنی کا انتظام فرما دیا اور آرام کرنے کے لیے اندھیرا درکار ہوتا ہے تو اس کا انتظام فرما دیا۔ پھر چاند اور سورج کو اپنی اپنی گردش میں قواعد و ضوابط کا اس قدر پابند بنا دیا ہے جس سے وہ سر مو تجاوز نہیں کرتے نہ ہی لمحہ بھر کی تقدیم و تاخیر ہوتی ہے۔ پھر انہیں سے تم دنوں، مہینوں اور سالوں کا شمار کر کے تاریخ مرتب کرتے ہو۔ کیا اس نظام کائنات میں اللہ کا کوئی شریک ہے؟ یا اللہ کے سوا کوئی دوسرا ایسا نظام وجود میں لا سکتا ہے؟