سورة الانعام - آیت 94

وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ یقیناً تم ہمارے پاس اکیلے آئے ہو، جیسے ہم نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور اپنی پیٹھوں کے پیچھے چھوڑ آئے ہو جو کچھ ہم نے تمھیں دیا تھا اور ہم تمھارے ساتھ تمھارے وہ سفارش کرنے والے نہیں دیکھتے جنھیں تم نے گمان کیا تھا کہ بے شک وہ تم میں حصے دار ہیں۔ بلا شبہ یقیناً تمھارا آپس کا رشتہ کٹ گیا اور تم سے گم ہوگیا، جو کچھ تم گمان کیا کرتے تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٧] مرنے کے بعد انسان کی بے بسی :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مندرجہ بالا اقسام سے بھی بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار تصرف میں کسی دوسرے کو بھی شریک سمجھا جائے۔ اسے اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھا جائے، حاجت روا اور مشکل کشا تسلیم کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ ہمارے یہ معبود بت یا اولیاء و بزرگ اللہ سے سفارش کر کے ہمیں اخروی عذاب سے بچا لیں گے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ موت کے ساتھ ہی انسان کی اللہ کے حضور پیشی ہوجاتی ہے اس پیشی کے وقت نہ اس کا مال و دولت موجود ہوتا ہے نہ رشتہ دار نہ وہ بزرگ جن کے متعلق انہوں نے سستی نجات کا عقیدہ وابستہ کر رکھا تھا کیونکہ موت کے بعد انسان ویسے ہی تن تنہا قبر میں جاتا ہے جیسا کہ تن تنہا ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا اور جیسے پیدائش کے بعد یہ مختلف قسم کے تعلقات پیدا ہوئے تھے۔ موت کے ساتھ ہی یہ سب رشتے کٹ جاتے ہیں اور صرف انسان کے اپنے اعمال پر ہی اخروی انجام کا دار و مدار ہوگا۔ موت کے بعد ان ظالموں کو یہ یاد ہی نہ رہے گا کہ دنیا میں ان کے تعلقات کس کس سے تھے اور یہ تعلقات کس کس نوعیت کے تھے۔