وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تو بتوں کو معبود بناتا ہے؟ بے شک میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔
[٨١] یعنی جس دن اللہ تعالیٰ اس جہان کو درہم برہم کرنا چاہے گا۔ تو فرشتہ اسرافیل صور میں پھونک مارے گا۔ اس سے زمین پر آباد تمام مخلوق مر جائے گی۔ پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ صور میں پھونکا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ نفخہ صور دو بار ہوگا۔ اور عجب الذنب :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صور دو بار پھونکا جائے گا اور ان دونوں میں چالیس کا فاصلہ ہوگا۔ لوگوں نے پوچھا 'چالیس دن کا ؟' کہنے لگے ’’ میں نہیں کہہ سکتا‘‘ لوگوں نے کہا ’’چالیس ماہ کا ؟‘‘ کہنے لگے ’’میں نہیں کہہ سکتا‘‘ پھر لوگوں نے پوچھا ’’چالیس برس کا ؟‘‘ کہنے لگے ’’میں نہیں کہہ سکتا‘‘ اس کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا تو لوگ زمین سے اس طرح اگ آئیں گے جیسے سبزہ اگ آتا ہے۔ دیکھو! آدمی کے بدن کی ہر چیز گل سڑ جاتی ہے مگر ایک ہڈی (کی نوک) وہ اس مقام کی ہڈی ہے جہاں جانور کی دم ہوتی ہے قیامت کے دن اسی ہڈی سے مخلوق کو جوڑ جاڑ دیا جائے گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورۃ النبا آیت نمبر ١٨) معبود حقیقی کی چند صفات :۔ معبودان باطل اور ان کے پرستاروں کی تردید کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں معبود حق کی یعنی اپنی ایسی چھ صفات بیان فرمائیں جو صرف اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے کسی باطل معبود میں ان کا پایا جانا ناممکن ہے اور وہ یہ ہیں (١) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین یعنی اس کائنات کو تعمیری نتائج کا حامل بنا کر پیدا کیا ہے (٢) پھر وہ اس کائنات میں وسعت بھی پیدا کرتا رہتا ہے اور تغیر و تبدل بھی۔ جب اسے کچھ کرنا منظور ہوتا ہے تو وہ اس کے ہوجانے کا حکم دے دیتا ہے اور وہ چیز یا حادثہ وجود میں آنا شروع ہوجاتا ہے۔ (٣) اس کی ہر بات کا ہر حکم سچا اور ٹھوس حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ (٤) جس دن اسے اس کائنات کو ختم کر کے روز آخرت میں لانا منظور ہوگا۔ تو اس عالم آخرت میں بھی اسی کی مکمل طور پر فرمانروائی ہوگی۔ (٥) اس کے لیے غیب اور شہادت سب کچھ یکساں، اس کی نظروں کے سامنے اور اس کے علم میں ہے شہادت سے مراد وہ اشیاء ہیں جو کسی انسان کے سامنے موجود ہیں یا ان تک انسان کی دسترس ہوچکی ہے یا ایسے طبعی قوانین جو انسان کے علم میں آ چکے ہیں اور غیب سے مراد ایسی اشیاء ہیں جو انسان کے علم میں نہیں آئیں خواہ وہ ماضی سے تعلق رکھتی ہوں یا مستقبل سے یا ایسے تمام قوانین جن تک تاحال انسان کی رسائی نہیں ہوسکی ایسی سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں۔ (٦) اس کے ہر کام میں اور ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور موجود ہوتی ہے خواہ انسان کو اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ اس لیے کہ وہ ہر چیز کی قلیل سے قلیل مقدار تک سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔