وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُ ۚ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ ۚ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور جس دن کہے گا ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہوجائے گا۔ اس کی بات ہی سچی ہے اور اسی کی بادشاہی ہوگی، جس دن صور میں پھونکا جائے گا، غیب اور حاضر کو جاننے والا ہے اور وہی کمال حکمت والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔
[٨٠] تخلیق کائنات کا مقصد :۔ یعنی اس لیے زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا کہ اس سے تعمیری نتائج پیدا ہوں۔ محض کھیل اور شغل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ جیسے بچے مٹی سے کھیلتے ہوئے اس سے مختلف شکلیں بناتے ہیں پھر انہیں خود ہی ڈھا کر مٹی میں ملا دیتے ہیں۔ بلکہ زمین و آسمان کو ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس خاص مقصد کا اگرچہ قرآن میں صریح الفاظ میں ذکر نہیں آیا تاہم بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب چیزیں انسان کی خدمت پر مامور ہیں اور انسان ہی ساری کائنات میں اشرف المخلوقات ہے۔ انسان کو ہی قوت تمیز اور ارادہ و اختیار دیا گیا ہے تاکہ اسے آزمایا جا سکے کہ آیا وہ اختیاری امور میں بھی اللہ کا فرمانبردار بن کر رہتا ہے یا نہیں؟ گویا انسان کی تخلیق کا مقصد صرف ایک اللہ کی عبادت ہے پھر اس جہان کے بعد اسے فنا کر کے ایک دوسرا جہان پیدا کیا جائے گا اور جو کچھ اچھے یا برے اعمال انسان نے اس دنیا میں سر انجام دیئے ہوں گے اس دوسرے جہان میں ان کی جزا و سزا ملے گی اور یہ دنیا اور آخرت سارے کا سارا ایک مربوط نظام ہے۔