قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
کہہ دے کیا ہم اللہ کے سوا اس کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے اور نہ ہمیں نقصان دے اور ہم اپنی ایڑیوں پر پھیر دیے جائیں، اس کے بعد کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہے، اس شخص کی طرح جسے شیطانوں نے زمین میں بہکا دیا، اس حال میں کہ حیران ہے، اسی کے کچھ ساتھی ہیں جو اسے سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہیں کہ ہمارے پاس چلا آ۔ کہہ دے اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہی اصل راستہ ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم جہانوں کے رب کے فرماں بردار بن جائیں۔
[٧٨] الٰہ محتاج نہیں ہوسکتا :۔ اس آیت میں ایک بڑی حقیقت بیان کی جا رہی ہے جو یہ ہے کہ حقیقی معبود وہ ہستی ہو سکتی ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے اور ان کی مشکلات کو دور کرسکے۔ لیکن اپنی زندگی اور اس کی بقا کے لیے دوسروں کی محتاج نہ ہو۔ اس معیار پر اگر پرکھا جائے تو تمام معبودان باطل خواہ وہ زندہ شخصیتیں ہوں یا فوت شدہ ہوں، دیویاں ہوں یا دیوتا، پتھر ہوں یا شجر ہوں یا کوئی اور جاندار چیز ہو سب کی از خود نفی ہوجاتی ہے۔ جن، بتوں، پتھروں اور درختوں اور جانداروں کی تو بات ہی چھوڑیئے۔ جن انبیاء یا بزرگوں کو یا اماموں کو یہ منصب عطا کیا جاتا ہے آپ دیکھئے کہ ان کی زندگی میں کوئی مشکل وقت آیا تھا ؟ اور اگر آیا تھا تو کیا انہوں نے اپنے آپ کو اس سے بچا لیا تھا ؟ اور اگر وہ اپنے آپ کو نہ بچا سکے تو پھر دوسروں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ جلب منفعت یا حاجت روائیوں کے لیے بھی یہی معیار اگر آپ مدنظر رکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا۔ کہ معبود برحق صرف اللہ ہی کی ذات ہو سکتی ہے۔ [٧٩] مشرکوں کی اپنے ساتھیوں کو دعوت :۔ جس طرح ہدایت کا راستہ صرف ایک ہے اور گمراہی کی راہیں لاتعداد ہیں اسی طرح اللہ کے پرستاروں کا حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ ہی ہوتا ہے اور مشرکوں کے حاجت روا اور مشکل کشا لاتعداد ہوتے ہیں۔ عرب کے دور جاہلیت کو ہی لیجئے جہاں ہر قبیلے کا حاجت روا اور مشکل کشا الگ الگ تھا کسی کا ہبل تھا کسی کا لات کسی کا منات کسی کا عزیٰ اور کسی کے اساف اور نائلہ، پھر ہندوستان اور مصر کے دیوی دیوتاؤں پر نظر ڈالیے وہ بھی ان گنت نظر آئیں گے۔ عیسائیوں کے بھی تین خدا تو عقیدہ تثلیث کی رو سے ہوئے اور چوتھا انہوں نے سیدہ مریم کو بھی اسی مقام پر فائز کردیا۔ مسلمانوں میں ہر پیر فقیر اور بزرگ ان کا حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ اگر کسی کی ایک قبر پر نذر و نیاز چڑھانے سے حاجت روائی نہیں ہوتی تو وہ کسی دوسرے بڑے بزرگ کی قبر پر چلا جاتا ہے اور پھر کسی تیسرے کے پاس اور انہیں بھیجنے والے شیاطین ہی ہوتے ہیں۔ اب اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کرے تو کیا کرے ہر الٰہ کے پرستار اسے اپنے الٰہ کی طرف دعوت دیتے اور کہتے ہیں کہ ادھر آؤ یہاں سے تمام مرادیں بر آئیں گی۔ مشرکوں کی یہ مثال دے کر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ ان سے زیادہ بحث و مناظرہ کی ضرورت نہیں۔ انہیں بس یہی کہہ دو کہ ہمیں تو اللہ کا یہی حکم ہے کہ ہم صرف اسی کے فرمانبردار بن کر رہیں۔ ادھر ادھر ہرگز نہ دیکھیں۔ اسی سے ڈریں اور اسی کے حکم کے مطابق نماز قائم کریں۔