وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
اور ان لوگوں کو چھوڑ دے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل اور دل لگی بنا لیا اور انھیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا اور اس کے ساتھ نصیحت کر کہ کہیں کوئی جان اس کے بدلے ہلاکت میں (نہ) ڈال دی جائے جو اس نے کمایا، اس کے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ کوئی سفارش کرنے والا۔ اور اگر وہ فدیہ دے، ہر فدیہ، تو اس سے نہ لیا جائے، یہی لوگ ہیں جو ہلاکت کے سپرد کیے گئے، اس کے بدلے جو انھوں نے کمایا، ان کے لیے گرم پانی سے پینا اور درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ کفر کرتے تھے۔
[٧٧] دین کو کھیل تماشا سمجھنے والے :۔ یعنی وہ لوگ جو پیروی تو اپنی خواہشات کی کرتے ہیں مگر خول مذہب کا چڑھا رکھا ہے۔ وہ اگر اپنے اپنے قبیلے کے الگ الگ خدا مقرر کرلیں تو بھی ان کے دین میں کچھ خلل نہیں آتا اور اگر دوسروں پر ظلم روا رکھیں ناجائز طریقوں اور لوٹ مار سے دوسروں کا مال ہتھیا لیں تو بھی جائز اور ہر طرح کے بے حیائی کے کام بھی ان کے لیے جائز۔ ان کے علاوہ اللہ کی آیات، اسلام، پیغمبر اسلام اور ان کے پیروکاروں کا مذاق اڑانا بھی انہوں نے اپنا دینی فریضہ سمجھ رکھا ہے اور چونکہ ان کی معاشی حالت اچھی ہے اور معاشرہ میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لہٰذا وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ انہیں بروقت اس بات سے متنبہ کر دیجئے کہ تم میں سے ہر ایک کا اور اس کے ایک ایک فعل کا حساب لیا جائے گا اور پھر اسے اس کی سزا بھگتنا ہوگی جس سے وہ کسی صورت بچ نہیں سکتا۔ اخروی عذاب سے نجات کی صورتیں :۔ سزا سے بچنے کی ممکنہ صورتیں تو یہی ہو سکتی ہیں کہ کوئی اس کا ایسا حمایتی اٹھ کھڑا ہو جو سزا دینے والے پر اثر انداز ہوسکتا ہو یا سزا دینے والے کا مقرب ہو اور وہ اس کی سفارش کرے تاکہ اسے سزا سے معاف رکھا جائے اور تیسری صورت یہ ہے کہ کچھ دے دلا کر اپنی گلو خلاصی کرا لے، وہاں یہ تینوں صورتیں ناممکن ہوں گی اور انہیں اپنے کرتوتوں کی سزا بہرحال بھگتنا ہی پڑے گی۔