سورة الانعام - آیت 44

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر جب وہ اس کو بھول گئے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہوگئے جو انھیں دی گئی تھیں، ہم نے انھیں اچانک پکڑ لیا تو اچانک وہ ناامید تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٧] دنیا میں عذاب سے متعلق اللہ کا قانون :۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مواخذہ کا قانون بیان فرمایا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کسی قوم میں اللہ کی نافرمانی کا آغاز ہوتا ہے تو اللہ ان پر ہلکے ہلکے عذاب نازل فرماتا ہے مثلاً قحط یا خشک سالی یا کوئی وبا وغیرہ۔ اور یہ عذاب تنبیہ یا وارننگ کے طور پر آتا ہے تاکہ لوگ اللہ کی گرفت سے ڈر جائیں اور اس کے حضور توبہ کریں۔ اور عاجزی کریں۔ اگر قوم فی الواقع متنبہ ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے تو اس سے وہ سختی بھی دور کردی جاتی ہے اور آئندہ اللہ کی رحمتوں کا نزول شروع ہونے لگتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے اور نافرمانیوں اور سرکشی میں ہی بڑھتی چلی جائے تو اس پر دوسری طرح کا عذاب آتا ہے اور وہ ہے عیش و عشرت کی فراوانی جس میں لوگ ایسے مگن ہوجاتے ہیں کہ اللہ کو یکسر بھول ہی جاتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہماری تہذیب و تمدن اور ملکی معیشت میں ترقی ہو رہی ہے پھر ان پر یکدم ایسا سخت عذاب آتا ہے جو اس قوم کو تہس نہس کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے اور وہ قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔