قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
کہہ کون سی چیز گواہی میں سب سے بڑی ہے؟ کہہ اللہ میرے درمیان اور تمھارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے، تاکہ میں تمھیں اس کے ساتھ ڈراؤں اور اسے بھی جس تک یہ پہنچے، کیا بے شک تم واقعی گواہی دیتے ہو کہ بے شک اللہ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں؟ کہہ دے میں (یہ) گواہی نہیں دیتا، کہہ دے وہ تو صرف ایک ہی معبود ہے اور بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک ٹھہراتے ہو۔
[٢٠] اللہ کی شہادت سب سے بڑھ کر کیسے؟ شہادت دو طرح سے ہوتی ہے ایک آنکھوں دیکھا حال کسی قاضی، جج یا حکم کے سامنے بیان کرنا جسے انگریزی میں (WITNESS) کہتے ہیں۔ دوسرے یقین کامل کی بنا پر شہادت جسے انگریزی میں (EVIDENCE) کہتے ہیں۔ ہم مسلمان اپنے یقین کامل کی بنا پر یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ تو یہ شہادت آنکھوں دیکھی شہادت نہیں۔ نہ ہم عینی شاہد یا چشم دید گواہ ہیں کیونکہ ہم نے اللہ کو دیکھا ہے اور نہ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کو بلکہ ہم یہ گواہی اپنے یقین کامل یا ایمان کی بنا پر دیتے ہیں اور اللہ کی گواہی اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر سچی ہے کہ اس میں شہادت کے دونوں پہلو پائے جاتے ہیں وہ چونکہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اس لحاظ سے یہ آنکھوں دیکھی شہادت ہے پھر وہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق و مالک اور اس کا مربی بھی ہے لہذا اس جیسا یقین کامل بلکہ حقیقی علم کسی کو نہیں ہو سکتا۔ [٢١] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تا قیامت اور سب کے لئے ہے :۔ کفار مکہ کے بعد جب یہود و نصاریٰ کی اکثریت نے بھی آپ کو جھٹلا دیا تو کفار کہنے لگے کہ بتاؤ اب تمہاری رسالت کی گواہی کون دیتا ہے؟ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اللہ میرے اور تمہارے درمیان اس بات پر گواہ ہے کہ میں فی الواقع اس کا رسول ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہوں اسی کے حکم سے کہہ رہا ہوں اور وہ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ یہ قرآن اسی نے مجھ پر نازل کیا ہے اور مجھے رسول بنانے اور قرآن نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو بھی آخرت کے عذاب سے بروقت متنبہ کر دوں اور اس قرآن کے ذریعے ان لوگوں کو بھی ڈراؤں جن جن تک یہ آواز پہنچے۔ اس آیت سے رسول اللہ کی رسالت تمام اقوام عالم کے لیے اور قیامت تک کے لیے ثابت ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امت مسلمہ کا یہ فرض ہے کہ قرآن کی آواز کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دے۔ [٢٢] یعنی گواہی محض قیاس اور ظن و تخمین کی بنا پر نہیں دی جا سکتی جب تک اس کے متعلق یقین کامل یا حقیقی علم نہ ہو یا اسے واضح دلائل سے ثابت نہ کیا جا سکتا ہو۔ سو ائے مشرکین مکہ! بتاؤ تم اپنے ان معبودوں کے متعلق ایسی گواہی دے سکتے ہو؟ اور اگر تم ایسی گواہی دے بھی دو تو کم از کم میں ایسی گواہی دینے کو تیار نہیں۔