قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُل لِّلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
کہہ کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے؟ کہہ اللہ کا ہے، اس نے اپنے آپ پر رحم کرنا لکھ دیا ہے، یقیناً وہ تمھیں قیامت کے دن کی طرف (لے جا کر) ضرور جمع کرے گا، جس میں کوئی شک نہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، سو وہی ایمان نہیں لاتے۔
[١٢] اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس لیے دیا ہے کہ مشرکین اس سوال کا جواب دینا نہیں چاہتے تھے وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ عقیدتاً اس بات کے قائل تھے کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اب اگر وہ اس بات کا اقرار کرتے تو اس اقرار سے استدلال ان کے خلاف پڑتا تھا اور اگر انکار کرتے تو یہ بات ان کے عقیدہ کے خلاف تھی لہذا جب انہوں نے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کی تو اللہ نے خود ہی اس کا جواب دے دیا۔ اور یہ جواب ایسا تھا جو ان کے نزدیک بھی مسلم تھا۔ [١٣] ویسے تو انسان کا تربیت اور پرورش پانا بھی اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک ایک قدم پر اللہ کی رحمت شامل ہو تو تب ہی وہ زندہ رہ سکتا ہے مزید برآں یہ کہ وہ مشرکوں کو شرک کرتے دیکھتا ہے۔ کافروں کو اپنی آیات کا انکار اور ہٹ دھرمی کرتے دیکھتا ہے۔ لیکن انہیں ہلاک نہیں کرتا۔ بلکہ انہیں بھی رزق دیئے جاتا ہے اور اس کی وجہ محض اس کی رحمت ہے۔ چنانچہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’میری رحمت میرے غصہ پر سبقت لے گئی ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ وکان عرشہ علی الماء) پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں کو ہلاک کرنے کا ذکر کیا تو ساتھ ہی اس آیت میں اپنی صفت رحمت کا ذکر اس انداز سے کیا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت پر صفت رحمت بہرحال اور اکثر ادوار میں غالب رہی ہے علاوہ ازیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف انداز میں سب سے پہلے اپنی ذات پر، پھر اپنی سب سے اہم صفت رحمت پر اور آخر میں آخرت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ [١٤] یعنی عقل اور فطرت سلیمہ دونوں سے کام لینا چھوڑ دیا ہے لہذا وہ خود ہی خسارہ میں رہنے پر تلے ہوئے ہیں۔