إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ ۖ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تیرا رب کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اتارے؟ اس نے کہا اللہ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔
[١٦١] یہ مکالمہ روز قیامت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ اس دنیا کا اور عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے جسے موقعہ کی مناسبت سے اور جملہ معترضہ کے طور پر یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔ [١٦٢] حواریوں کا خوان نعمت کا مطالبہ :۔ حواری جو اسلام لا چکے تھے وہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے یہ پوچھنے لگے کہ کیا تمہارے پروردگار میں اتنی قدرت ہے کہ ہم پر آسمان سے تیار شدہ کھانا نازل کرے اور اپنے اس مطالبہ کی انہوں نے تین وجوہ بتائیں۔ ایک یہ کہ ہم فکر معاش کے دھندوں سے آزاد ہو کر یکسو ہو کر اللہ کی عبادت کرسکیں۔ دوسرے یہ کہ ہمیں یہ یقین حاصل ہوجائے کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بالکل حقیقت ہے اور اللہ واقعی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور تیسرے یہ کہ جس دن اس دسترخوان کا نزول ہو ہم اس دن خوشی کا جشن اور عید منائیں اور آئندہ بھی اس دن عید مناتے رہیں۔ عیسوی عقائد ما بعد کی پیداوار ہیں :۔ حواریوں کے اس مطالبہ سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین آپ کو الٰہ یا اللہ یا ابن اللہ یا تین خداؤں میں سے ایک خدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں محض اللہ کا بندہ اور اس کا رسول سمجھتے تھے ورنہ ان کے مطالبہ کا انداز یہ ہوتا کہ ’’کیا تم میں یہ قدرت ہے کہ ہمارے لیے آسمان سے دسترخوان اتار کر دکھاؤ۔‘‘ [١٦٣] عیسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا امتحان نہ لو۔ اس سے ڈرتے رہو اور اس کے فرمانبردار بن کر رہو۔ اور فرمانبردار کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اپنے آقا کا امتحان لینا شروع کر دے۔