لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھاچکے، جب کہ وہ متقی بنے اور ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، پھر وہ متقی بنے اور ایمان لائے، پھر وہ متقی بنے اور انھوں نے نیکی کی اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
[١٣٩] سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب شراب کی حرمت نازل ہوئی میں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں لوگوں کو (ساقی بن کر) شراب پلا رہا تھا۔ جب شراب کی حرمت کی منادی ہوئی تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جا کر سب شراب بہا دو۔ میں نے بہا دی جو مدینہ کی گلیوں میں بہتی چلی گئی۔ پھر بعض لوگ کہنے لگے کہ : ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کے پیٹ میں شراب تھی اور وہ شہید ہوگئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [١٤٠] ایمان کے مختلف درجے :۔ اس آیت میں تین بار ایمان اور تقویٰ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں کیونکہ ایمان اور تقویٰ کے مختلف درجات ہیں۔ ایک شخص جب ایمان لاتا ہے تو اس کا تقویٰ کم تر درجہ کا ہوتا ہے پھر جب صالح اعمال کرتا ہے تو اس کا ایمان بھی مضبوط ہوتا جاتا ہے اور تقویٰ میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے بالفاظ دیگر ایمان اور تقویٰ معلوم کرنے کا معیار صالح اعمال کی کمی بیشی ہوتا ہے اور صالح اعمال کی بجا آوری سے ایمان اور تقویٰ میں اضافہ ہوتا ہے گویا یہ دونوں ایک دوسرے کے ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں ایمان اور تقویٰ کا بلند تر درجہ احسان ہے احسان کا لفظی معنی کسی کام کو اپنے دل کی رضاء ورغبت اور نہایت اچھے طریقے سے بجا لانا ہے۔ اور جو بھی عمل صالح ان شرائط سے بجا لایا جائے گا احسان کے درجہ میں ہوگا۔ حدیث جبریل میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’احسان کیا ہے؟‘‘ فرمایا کہ ’’احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت ایسے کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو ایسا نہ کرسکے تو کم از کم یہ سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب سوال جبریل النبی۔۔) اور عبادت کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ جس کا اطلاق ہر عمل صالح پر ہوسکتا ہے۔