لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اللہ تم سے تمھاری قسموں میں لغو پر مؤاخذہ نہیں کرتا اور لیکن تم سے اس پر مؤاخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادے سے قسمیں کھائیں۔ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، درمیانے درجے کا، جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا انھیں کپڑے پہنانا، یا ایک گردن آزاد کرنا، پھر جو نہ پائے تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے، جب تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم شکر کرو۔
[١٣٢] قسموں کے مسائل سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ لغو قسموں سے مراد ایسی قسمیں ہیں جو انسان تکیہ کلام کے طور پر (نیت سے نہیں) کہہ دیتا ہے جیسے لا واللہ۔ بلی واللہ۔ نیز آپ فرماتی ہیں کہ میرے والد (سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) کبھی قسم نہیں توڑتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے کفارہ کی آیت نازل فرمائی اس وقت وہ کہنے لگے ’’میں جب قسم کھا لوں پھر اس کے خلاف کو اچھا سمجھوں تو اللہ کی رخصت منظور کر کے وہ کام کرلیتا ہوں جسے اچھا سمجھتا ہوں۔‘‘ (بخاری کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کسی نے قسم کھانا ہو تو اللہ کی قسم کھائے ورنہ چپ رہے‘‘ (بخاری کتاب الایمان والنذور۔ مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب النھی عن الحلف بغیر اللہ تعالیٰ) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔‘‘ (ابو داؤد۔ کتاب الایمان والنذور باب۔ فی کراھیۃ الحلف بالاباء) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ، نہ ماؤں کی اور نہ شریکوں کی اور اللہ کی قسم بھی اس وقت کھاؤ جب تم سچے ہو۔‘‘ (ابو داؤد۔ کتاب الایمان والنذور باب۔ فی کراھیہ الحلف بالاباء نسائی۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الحلف بالامہات) ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کبیرہ گناہ یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کو ستانا، کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الیمین الغموس ( وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَیْمَانَکُمْ 94) 16۔ النحل :94) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی کام کے کرنے کی قسم کھائے پھر ان شاء اللہ کہے تو اس پر (قسم توڑنے کا) کوئی گناہ نہیں ہوگا۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب النذور والایمان۔ باب فی الاستثناء فی الیمین) ٧۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم دینے والے کی قسم کو پورا کرنے کا حکم دیا‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذورباب واقسموا باللہ جھد ایمانھم) ٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الیمین علی نیۃ المستحلف) ٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم کسی کام کے کرنے کی قسم کھالو، پھر کسی اور کام میں بہتری سمجھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو اور وہ کام کرو جو بہتر ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب۔ (لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ ٢٢٥۔) 2۔ البقرۃ :225) مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب ندب من حلف یمینا) [١٣٢۔ الف] قسموں کی قسمیں :۔ کلام عرب سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا۔ اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیہ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لئے۔ ایسی ہی قسموں کے لئے اللہ تعالیٰ نے لغو کا لفظ استعمال فرمایا ہے جن کا کوئی کفارہ نہیں۔ رہیں وہ قسمیں جو دل کے ارادہ سے اٹھائی جائیں تو ان کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جو کسی درست بات پر اٹھائی جائیں اور اگر ان کا تعلق مستقبل سے ہو تو انہیں قسم کے مطابق پورا بھی کردیا جائے۔ ایسی قسموں پر کفارہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری وہ قسم جس کا تعلق مستقبل سے ہو اور جس کام پر قسم اٹھائی گئی وہ ممنوع تو نہ تھا مگر اس کام پر قسم نہ اٹھانا ہی بہتر تھا۔ جیسے ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ شہد نہ پینے پر قسم اٹھا لی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر تنبیہ فرمائی (التحریم آیت : ١) یا کسی صحابی نے ایک مرغی کو غلاظت میں چونچ مارتے دیکھ لیا تو آئندہ مرغی نہ کھانے پر قسم اٹھائی تھی۔ ایسی قسموں کو بھی توڑ کر ان کا کفارہ ادا کرنا چاہئے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں سے حدیث نمبر ١۔ اور حدیث نمبر ٩ سے واضح ہے۔ قسمیں اور ان کا کفارہ۔ کفارے میں قدر مشترک۔ غلام کی آزادی :۔ کفارہ کا لغوی معنی وہ نیکی کا کا کم کرنا ہے جو کسی پہلے سے کئے ہوئے برے کام کا عوض بن کر اس کو ڈھانپ دے یا ختم کردے۔ قرآن کریم اور احادیث میں بہت سے ایسے گناہوں کا ذکر آیا ہے جن کے کفارے بیان گئے ہیں۔ مثلاً قتل خطا کا کفارہ ’’ ظہار کا کفارہ‘‘ احرام کی حالت میں شکار کرنے کا کفارہ’’ فرضی روزہ توڑنے کا کفارہ‘‘ قسم توڑنے کا کفارہ اور کسی کو رخمی کرنے کا کفارہ وغیرہ ان میں سے اکثر کفاروں میں قدر مشترک، غلام کو آزاد کرنا ہے۔ جیسا کہ قسم توڑنے کے کفارے میں بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے غلامی کا رواج ایک مذموم چیز تھی جسے آہستہ آہستہ ختم کردیا گیا۔ آج الحمدللہ غلامی کا رواج نہیں رہا۔ لہٰذا قسم کے کفارہ کی باقی تین متبادل صورتیں رہ گئی ہیں۔ ایک دس مسکینوں کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق درمیانہ درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو پوشاک مہیا کرنا یا تین روزے رکھنا۔ اب یہ ضروری نہیں کہ دس مسکینوں کو بلا کر انہیں اکٹھا بٹھا کر کھانا ہی کھلایا جائے بلکہ اس کی قیمت لگا کر یہ رقم دس مسکینوں کو یا کسی ایک کو یا دو تین مسکینوں کو بھی دی جا سکتی ہے۔ یہی صورت حال پوشاک کی بھی ہے۔ اور روزوں کے متعلق بظاہر اس آیت میں کوئی پابندی نہیں کہ وہ اکٹھے ہی ایک ساتھ تین دن رکھے جائیں۔ اس میں گنجائش موجود ہے کہ یہ روزے الگ الگ دنوں میں بھی رکھے جا سکتے ہیں۔