لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ وَإِن لَّمْ يَنتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
بلاشبہ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا بے شک اللہ تین میں سے تیسرا ہے، حالانکہ کوئی بھی معبود نہیں مگر ایک معبود، اور اگر وہ اس سے باز نہ آئے جو وہ کہتے ہیں تو یقیناً ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا انھیں ضرور درد ناک عذاب پہنچے گا۔
[١٢٠] عقیدہ تثلیث اور اس کا رد :۔ متی، مرقس اور لوقا کی انجیلوں میں عیسیٰ علیہ السلام کے الٰہ ہونے کی گنجائش نہیں خود عیسیٰ علیہ السلام نے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک انسان ہی کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ تثلیث اور الوہیت مسیح کا عقیدہ چوتھی صدی عیسوی میں رائج ہوا۔ اس عقیدہ کی بنیاد تو یونانی فلسفہ کے افکار و نظریات پر اٹھائی گئی تھی جیسا کہ آج کل بعض مسلمان بھی اسی فلسفہ کے مسئلہ عقول عشرہ پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کے نور کا حصہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے نظریات عموماً پیروں فقیروں میں فروغ پاتے ہیں۔ انبیاء کے متعلق ایسے نظریات عموماً ان کی عقیدت و محبت میں افراط کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو اللہ کے مقام تک جا پہنچاتے ہیں یہ صریح شرک ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کہیں کافر فرمایا ہے اور کہیں مشرک۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پیشتر جو نہایت اہم وصیتیں اپنی امت کو کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ’’مجھے ایسا نہ بڑھانا جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا تھا۔ میں تو بس اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم )