لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلًا ۖ كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ
بلاشبہ یقیناً ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ان کی طرف کئی رسول بھیجے، جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس وہ چیز لے کر آیا جسے ان کے دل نہیں چاہتے تھے تو انھوں نے ایک گروہ کو جھٹلا دیا اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔
[١١٧] اخروی نجات کے حقدار کون؟ بنی اسرائیل کی ایسی کرتوتوں کا ذکر قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے اور اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کا دین صرف اپنی خواہشات کی پیروی تھا۔ کتاب اللہ میں سے ایسی چیزوں کی پیروی کرلینا جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوں اور جو باتیں خواہشات کے خلاف ہوں ان میں عصیان و سرکشی کی راہ اختیار کر جانا دراصل کتاب اللہ کی پیروی نہیں بلکہ اپنی خواہشات ہی کی پیروی ہوتی ہے اور یہی کچھ وہ کیا کرتے تھے اور اس خواہش نفس کی پیروی میں وہ اس حد تک بڑھے ہوئے تھے اور انبیاء کو جھٹلانا تو درکنار، قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔