وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ
اور بلاشبہ یقیناً تم ان لوگوں کو جان چکے ہو جو تم میں سے ہفتے (کے دن) میں حد سے گزر گئے تو ہم نے ان سے کہا ذلیل بندر بن جاؤ۔
[٨١] اصحاب سبت کا انجام :۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ہفتہ کے دن کاروبار نہیں کریں گے بلکہ چھٹی کریں گے اور اس دن آرام اور اللہ کی عبادت کیا کریں گے اور تورات میں یہ بھی وضاحت ہے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حرمت کو توڑے گا، وہ واجب القتل ہے۔ لیکن یہود پر اخلاقی انحطاط کا دور آیا تو یہود اس دن کھلے بندوں اپنا کاروبار جاری رکھتے اور تجارت وغیرہ کیا کرتے۔ اس سلسلہ میں سورۃ اعراف میں ایک مخصوص بستی کا ذکر بھی آیا ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی اور ان لوگوں کا پیشہ ماہی گیری تھا۔ لیکن اتفاق کی بات کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتہ کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھرتیں۔ اب ان ماہی گیروں نے یہ حیلہ سازی کی کہ ساحل کے ساتھ کھائیاں کھود لیں۔ اس میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آ جاتیں اور دوسرے دن یہ لوگ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے، ان بستی والوں کے تین گروہ بن گئے۔ ایک تو مجرم گروہ تھا جو اس حیلہ سے مچھلیاں پکڑتا تھا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو انہیں اس حیلہ سازی سے منع کرتا تھا اور تیسرا گروہ وہ تھا جو خود مچھلیاں پکڑتا تو نہیں تھا لیکن پکڑنے والوں کو منع بھی نہیں کرتا تھا اور منع کرنے والوں سے کہتا تھا کہ تم ان لوگوں کو کیوں منع کرتے ہو جو باز آنے والے نہیں اور ان پر عذاب نازل ہونے والا ہے اور منع کرنے والے یہ جواب دیتے کہ ’’ہم اس لیے منع کرتے ہیں کہ ہم اپنے رب کے حضور معذرت پیش کرسکیں اور دوسرے یہ کہ شاید یہ لوگ باز ہی آ جائیں۔‘‘ (٧ : ١٦٤) بندر بننے کی تاویل کرنے والے :۔ پھر جب اس قوم پر عذاب نازل ہوا تو اس عذاب سے صرف منع کرنے والا گروہ بچا لیا گیا۔ خاموش رہنے والے اور مجرم دونوں گروہوں پر عذاب نازل ہوا اور وہ عذاب یہ تھا کہ ’’تم ذلیل و خوار بندر بن جاؤ۔‘‘ اب معجزات کے منکر اور نیچری حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی عادات و خصائل تو بندروں جیسے ہوگئے تھے۔ لیکن ان کی صورتیں مسخ نہیں ہوئی تھیں (یعنی وہ فی الواقع بندر نہیں بنے تھے) یہ توجیہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ ایک تو قرآن کے ظاہری الفاظ سے یہ گنجائش نہیں نکلتی۔ دوسرے مابعد کی آیت اس توجیہ کی توثیق کے بجائے تردید کر رہی ہے۔ کیونکہ اگر ان کی شکلیں بدستور انسانوں کی ہی رہیں، تو وہ اس وقت کے موجود لوگوں اور پچھلوں کے لیے سامان عبرت کیسے بن سکتے تھے اور پرہیزگار ان سے کیا سبق لے سکتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ فی الواقع بندر بن گئے تھے تاہم ان کے دماغ وہی رہے۔ ان میں فہم و شعور انسانی موجود تھا۔ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر روتے تھے مگر کلام نہیں کرسکتے تھے۔ پھر تین دن کے بعد سب مر گئے اور یہ واقعہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے دور میں پیش آیا تھا۔ (نیز دیکھئے سورۃ اعراف آیت نمبر ١٦٤)