وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ
اور وہ لوگ جو ایمان لائے، کہتے ہیں کیا یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنی پختہ قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی تھی کہ بلاشبہ وہ یقیناً تمھارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال ضائع ہوگئے، پس وہ خسارہ اٹھانے والے ہوگئے۔
[٩٥] اسلام کے غلبہ کا منافقوں پر اثر :۔ ان کی اسلام دشمن خفیہ حرکات سے جب مسلمانوں کو ان کے منافق ہونے کا شک ہونے لگتا ہے تو اللہ کی قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم تمہارے ہی ساتھ ہیں اور ان یہود سے جو ہماری بات چیت ہوتی ہے وہ محض رسمی اور مروت کے طور پر ہوتی ہے اور منافقوں کا دستور یہ تھا کہ ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کو دغا دیا کرتے بلکہ بعد میں قسمیں کھانے لگتے اور اگر مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شامل نہ ہوتے تو بہانے تراشنے لگتے اور اپنے آپ کو سچا ظاہر کرنے کے لیے قسمیں کھانے لگتے۔ ان لوگوں کا دنیا میں تو یہ حشر ہوا کہ مسلمانوں کو بالآخر فتح نصیب ہوئی۔ مکہ فتح ہوا تو تمام قبائل عرب کو معلوم ہوگیا کہ اب اسلام ہی غالب قوت بن کر ابھر چکا ہے اور اب کفر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس طرح منافقوں کی تمام امیدوں اور آرزوؤں پر اوس پڑگئی۔ مسلمانوں کے سامنے پہلے ہی ناقابل اعتماد ٹھہر چکے تھے لہٰذا حسرت و یاس کے سوا انہیں کچھ ہاتھ نہ آیا اور آخرت میں اس لحاظ سے خسارہ میں رہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جو ارکان اسلام بجا لاتے رہے وہ سب ان کی منافقت کی وجہ سے ضائع ہوجائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا کے لیے تو کیے ہی نہ تھے وہ تو مسلمانوں سے مفادات حاصل کرنے کے لیے کیے تھے اور وہ مفادات حاصل کرچکے۔ باقی جو مسلمانوں سے غداری کرتے رہے اس کے عوض انہیں دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں عذاب دیا جائے گا۔