وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
[٧٢] حرابہ یا ڈکیتی کی سزا بیان کرنے کے بعد اب چور کی سزا کا بیان شروع ہوتا ہے۔ چور کی سزا میں دونوں ہاتھ نہیں بلکہ ایک ہاتھ اور پہلی بار کی چوری پر دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اور یہ پہنچے تک کاٹا جائے گا۔ (اور یہ سب باتیں سنت سے ثابت ہیں) تاکہ وہ آئندہ کے لیے ایسی حرکت سے باز رہے اور دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ اور اگر اس سے مال مسروقہ برآمد ہوجائے تو وہ اصل مالک کو لوٹایا جائے گا اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث کا مطالعہ مفید ہوگا۔ ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مخزومی عورت (فاطمہ) نے چوری کی تو قریش کو (ہاتھ کٹ جانے پر) بہت فکر لاحق ہوئی۔ کہنے لگے کون ہوسکتا ہے جو اس سلسلہ میں رسول اللہ سے بات کرے اور اسامہ کے سوا اور کون ایسی جرأت کرسکتا ہے جو رسول اللہ کے محبوب ہیں؟ (چنانچہ قریش کے کہنے پر) اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو آپ نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا’’'کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’لوگو! تم سے پہلے لوگ صرف اس وجہ سے گمراہ ہوگئے کہ اگر ان میں سے کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد لگاتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘ (اور ایک روایت میں ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آیا کرتی تو میں اس کی حاجت رسول اللہ تک پہنچا دیا کرتی۔ اس نے توبہ کی اور اس کی توبہ اچھی رہی۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب کراھیۃ الشفاعۃ فی الحد، نیز باب توبۃ السارق۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب قطع السارق الشریف) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ چور پر لعنت کرے۔ ایک انڈے کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور ایک رسی کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الحدود باب لعن السارق اذالم یسم ) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال چرانے پر ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب السارق والسارقۃ۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالسرقہ و نصابہا) ٤۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد پر کاٹ دیا جائے‘‘ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب السارق والسارقۃ ) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لٹکے ہوئے پھل کی چوری کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور کھا لے مگر ساتھ نہ لے جائے تو اس پر کوئی حد نہیں اور جو شخص دامن بھر کر نکلے تو اس سے دوگنی قیمت وصول کی جائے اور سزا دی جائے۔ اور جو شخص پھلوں کو محفوظ مقام پر پہنچائے جانے کے بعد اس میں چوری کرے اور پھل کی قیمت ڈھال کی قیمت تک پہنچ جائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے اور اگر قیمت ڈھال سے کم ہو تو دوگنی قیمت لی جائے اور سزا دی جائے۔‘‘ (ابو داؤد۔ کتاب الحدود۔ باب مالایقطع فیہ ) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خائن، لٹیرے اور اچکے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی الخائن والمختلس) ٧۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جنگ کے دوران (میدان جنگ میں) ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے۔‘‘ (ابو داؤد کتاب الحدود۔ باب السارق یسرق فی الغزو) اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ میدان جنگ میں سب لوگ مسلح ہوتے ہیں اگر سزا پانے والا طیش میں آ کر کوئی غلط حرکت کر بیٹھے تو یہ عین ممکن ہے۔ اس طرح اپنے ہی لشکر میں انتشار پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ لہٰذا صرف چوری کی حد ہی نہیں۔ ہر قابل حد یا قابل تعزیر جرم کی سزا کو موخر کردیا گیا۔ نیز سیدنا عمر نے قحط کے ایام میں چوری کی سزا یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف کردی تھی اور ان کا استدلال اس واقعہ سے تھا کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عباد بن شرجیل نے کسی کھیت سے غلہ لے لیا۔ کھیت کے مالک نے عباد بن شرجیل کو پکڑ لیا۔ اسے مارا اور اس کا کپڑا بھی چھین لیا۔ پھر اسے پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک سے فرمایا۔ (اگر یہ نادان تھا تو تو نے اس کو تعلیم کیوں نہ دی اور اگر یہ بھوکا تھا تو تو نے اسے کھانے کو کیوں نہ دیا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بھوکے چور کو کوئی سزا نہیں دلوائی۔ الٹا مالک نے اسے کپڑا بھی واپس کیا اور مار کے بدلے بہت سا غلہ بھی دیا۔ ٨۔ چور کی چوری جب عدالت میں ثابت ہوجائے تو اس کا ہاتھ ضرور کاٹا جائے گا اور مقدمہ عدالت میں پہنچنے سے پیشتر اگر مالک چور کو معاف کر دے تو یہ جائز ہے مگر عدالت میں پہنچنے کے بعد معاف نہیں کرسکتا۔ چنانچہ سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مسجد میں اپنی چادر کا تکیہ بنا کر اپنے سر کے نیچے رکھ کر سوئے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور آہستہ سے اس نے وہ چادر آپ کے سر کے نیچے سے کھینچ لی۔ اتنے میں صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کو بھی جاگ آ گئی تو وہ اسے پکڑ کر رسول اللہ کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ (اس پر صفوان رضی اللہ عنہ کو اس آدمی پر ترس آ گیا) اور کہنے لگا، یا رسول اللہ ! میں نے اس کا قصور معاف کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے ابو وہب (یہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) تم نے اسے ہمارے ہاں لانے سے پہلے کیوں نہ معاف کردیا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کٹوا دیا۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب الرجل یتجاوز للسارق۔۔) نیز سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’تم آپس میں ہی ایک دوسرے کو حدود معاف کردیا کرو۔ پھر جب مقدمہ مجھ تک پہنچ گیا تو حد واجب ہوجائے گی۔‘‘ (ابو داؤد۔ نسائی بحوالہ مشکوۃ کتاب الحدود۔ فصل ثانی) ٩۔ سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’چور جب (پہلی بار) چوری کرے، تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دو۔ پھر (دوسری بار) چوری کرے تو اس کا (بایاں) پاؤں کاٹ دو۔ پھر (تیسری بار) چوری کرے تو اس کا (بایاں) ہاتھ کاٹ دو۔ پھر (چوتھی بار) چوری کرے تو اس کا (دایاں) پاؤں کاٹ دو۔‘‘ (شرح السنہ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الحدود۔ قطع السرقتہ۔ دوسری فصل) [٧٣] یہ ہاتھ کاٹنے کی سزا اس کو چوری کرنے کے بدلہ میں ملی ہے۔ رہا مال مسروقہ۔ تو اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ راجح قول یہی ہے کہ اگر مال مسروقہ چور سے برآمد ہوجائے یا وہ اتنی مالیت کی ادائیگی کرسکتا ہو تو اس سے مال بھی وصول کر کے اصل مالک کو دلوایا جائے گا۔ کیا اسلامی سزائیں غیر انسانی ہیں :۔ آج کل یورپ کی نام نہاد مہذب اقوام اسلامی سزاؤں کو غیر مہذب اور وحشیانہ سزائیں سمجھتی ہیں اور بدنی سزاؤں کو غیر انسانی سلوک اور ظلم کے مترادف سمجھتی ہیں۔ علامہ اقبال سے یورپ میں ان کے کسی دوست نے کہا کہ اسلام میں چوری کی سزا تو بڑی غیر مہذبانہ ہے تو علامہ اقبال نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ کیا تمہارے خیال میں چور 'مہذب' ہوتا ہے؟ ان لوگوں نے اپنے اسی نظریہ کے تحت اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر میں اس کو غیر انسانی سلوک قرار دے کر ایسی سزاؤں کو ترک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس نظریہ کے دعویدار اپنی حکومتوں میں سیاسی ملزموں پر بند کمروں میں ایسے دردناک مظالم ڈھاتے اور بدنی سزائیں دیتے ہیں جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے اور مشاہدہ یہ ہے کہ بند کمروں میں ایسی سزائیں دینا مجرموں کو اپنے کردار میں مزید پختہ بنا دیتا ہے۔ پھر یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ جہاں جہاں عدالتوں میں بدنی سزائیں موقوف ہوئیں وہاں جرائم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ اگر انسانی جسم کو بچانے کے لیے پھوڑے کا آپریشن محض جائز ہی نہیں بلکہ اسے عین ہمدردی سمجھا جاتا ہے تو معاشرہ کو ظلم و فساد سے بچانے کے لیے بدمعاشوں کو بدنی سزا دینا کیسے غیر انسانی سلوک بن جاتا ہے؟ اور چوروں اور بدمعاشوں پر رحم کر کے معاشرہ میں بدامنی کو کیوں گوارا کرلیا جاتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے مہذب اقوام کی ہمدردیاں کیوں پیدا ہوجاتی ہیں؟ کیا یہ معاشرہ کے ساتھ غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک نہیں؟ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر انسانی سلوک کے یہ علمبردار اپنے ممالک میں قیام امن میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ آج کل سعودی عرب میں شرعی سزائیں رائج ہیں تو وہاں جرائم کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہوچکی ہے۔ اس کے مقابلہ میں امریکہ جیسے سب سے مہذب ملک میں جرائم کی تعداد اس سے سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ ہمارے خیال میں اس غنڈہ عنصر کی پشت پناہی کی وجہ محض یہ ہے کہ موجودہ جمہوری دور میں 'غیر انسانی سلوک کے یہ علمبردار' خود غنڈہ عناصر کے رحم و کرم کے محتاج اور انہی کی وساطت سے برسراقتدار آتے ہیں تو ایسے لوگ اپنے مددگاروں کے حق میں برسر عام بدنی سزائیں کیسے گوارا کرسکتے ہیں؟