مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ جس نے ایک جان کو کسی جان کے (بدلے کے) بغیر، یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا اور جس نے اسے زندہ کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کیا اور بلاشبہ ان کے پاس ہمارے رسول واضح دلائل لے کر آئے، پھر بے شک ان میں سے بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں یقیناً حد سے بڑھنے والے ہیں۔
[٦٤] جن صورتوں میں قتل جائز ہے :۔ شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے (١) قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص (٢) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو حد قائم کرنے کی صورت میں انہیں رجم کر کے مار ڈالنا اور (٣) ارتداد کے جرم میں قتل کرنا۔ ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق اور فساد فی الارض کے ضمن میں ہی آئے گا اور ایسے ہی قتل کے متعلق یہ لکھا تھا کہ جس نے ایک آدمی کو بھی ناحق قتل کیا اس نے گویا سب لوگوں کو قتل کیا۔ کیونکہ ایسا آدمی پوری انسانیت کا اور امن عامہ کا دشمن ہوتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اسے یہ جرم کرتے دیکھ کر اس پر دلیر ہوجاتے ہیں لہٰذا اس جرم کی سزا کا اظہار ان الفاظ سے کیا گیا اور بنی اسرائیل چونکہ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اس لیے بطور خاص ان الفاظ سے تنبیہ کی گئی ہے اور اس جرم کے برعکس اگر کوئی شخص کسی کو مظلومانہ موت سے نجات دلا کر بچا لیتا ہے تو وہ بھی اتنی ہی بڑی نیکی ہے کیونکہ ایسا شخص انسانیت کا ہمدرد اور امن عامہ میں ممد و معاون بنتا ہے۔ اب اسی ضمن میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ (١) قتل ناحق کے گناہ کا حصہ آدم کے پہلے بیٹے پر :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص بھی مظلوم قتل ہوتا ہے تو اس کے خون کا گناہ آدم کے پہلے بیٹے پر بھی لاد دیا جاتا ہے کیونکہ وہی پہلا شخص ہے جس نے قتل کو جاری کیا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب اذ قال ربک للملئِکۃ۔ نیز کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ باب من دعا الی ضلالۃ مسلم۔ کتاب القسامۃ باب اثم من سنّ القتل ) (٢) سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘ صحابہ نے عرض کیا ’’مظلوم کی مدد تو ٹھیک ہے مگر ظالم کی کیسے مدد کریں؟‘‘ فرمایا ’’ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو‘‘ (بخاری۔ کتاب المظالم۔ باب اعن اخاک ظالما او مظلوما مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب اذا توجہ المسلمان بسیفھما) (٣) سیدنا جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ’’لوگوں کو چپ کراؤ‘‘ (میں نے چپ کرا دیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوگو! میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ بن جانا‘‘ (بخاری کتاب العلم۔ باب الانصات للعلماء ) تیسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کا قاتل مسلمان نہیں رہتا بلکہ کافر ہوجاتا ہے۔ [٦٥] بینات سے مراد معجزات انبیاء بھی ہو سکتے ہیں۔ جن سے ان انبیاء کی نبوت کی تصدیق بھی مطلوب ہوتی ہے یعنی انبیاء کی تصدیق ہوجانے کے بعد بھی بنی اسرائیل ان کا انکار ہی کرتے رہے۔ ان سے دشمنی بھی رکھی۔ ان کی راہ میں روڑے بھی اٹکائے۔ حتیٰ کہ انہیں ناحق قتل ہی کیا اور بینات سے مراد واضح احکام بھی ہیں یعنی ٹھیک ٹھیک احکام دیئے جانے کے باوجود بھی ان میں سے اکثر لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ہی رہے۔