سورة المآئدہ - آیت 27

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر، جب ان دونوں نے کچھ قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول کرلی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا۔ اس نے کہا بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٨] بنی اسرائیل کا جہاد سے اس طرح گریز کرنے کا قصہ بیان کرنے کے بعد اب آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے۔ ان میں سے قابیل عمر میں بڑا تھا۔ کاشت کاری کرتا تھا۔ جسم کا قوی اور تند مزاج تھا اس کا چھوٹا بھائی ہابیل بھیڑ بکریاں پالتا اور چرایا کرتا تھا۔ نیک، سرشت، فرمانبردار اور منکسر المزاج تھا۔ ان دونوں میں کسی بات پر تنازعہ پیدا ہوا اور بالآخر قابیل نے ظلم و تشدد کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائی کو جان ہی سے مار ڈالا۔ سابقہ آیات سے اس قصہ کا ربط یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود بھی مظلوموں کے قتل میں بڑے دلیر واقع ہوئے تھے حتیٰ کہ انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے۔ یعنی یہود قتل کی سازشوں میں اور مظلوموں کو قتل کرنے میں بڑے دلیر واقع ہوئے تھے مگر جب جہاد کا موقعہ آیا تو ایسی بزدلی دکھائی کہ اپنی جگہ سے ہلنے کا نام ہی نہ لیتے تھے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مکر و فریب کی چالوں سے مظلوموں پر ہاتھ اٹھانے والے لوگ معرکہ کار زار میں نامرد ہی ثابت ہوا کرتے ہیں۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی مدینہ کے یہودیوں کی بالکل یہی صورت حال تھی۔ قصہ ہابیل اور قابیل :۔ ہابیل اور قابیل میں تنازعہ کس بات پر تھا ؟ قرآن اس سوال کا جواب دینے سے خاموش ہے البتہ تفاسیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام جس لڑکی سے ہابیل کا نکاح کرنا چاہتے تھے، قابیل یہ چاہتا تھا کہ یہ لڑکی اس کے نکاح میں آئے۔ اس کا یہ مطالبہ چونکہ بے انصافی پر مبنی تھا لہٰذا اسے تسلیم نہ کیا گیا۔ اس سے قابیل اور بھی طیش میں آ گیا۔ جس کا حل سیدنا آدم نے یہ پیش کیا کہ دونوں اللہ کے حضور قربانی پیش کرو۔ جس کی قربانی کو آگ آ کر کھا جائے یعنی جس کی قربانی اللہ کے ہاں مقبول ہوجائے اسی سے اس لڑکی کا نکاح کردیا جائے گا۔ اور یہ تنازعہ ختم ہوجائے گا۔ [٥٩] چنانچہ دونوں نے قربانی پیش کی۔ ہابیل ویسے بھی نیک سیرت انسان تھا اور اس لڑکی سے نکاح کا حق بھی اسی کا بنتا تھا۔ نیز اس نے قربانی میں جو اشیاء پیش کی تھیں وہ سب اچھی قسم کی تھیں اور خالصتاً رضائے الٰہی کی نیت سے پیش کی تھیں لہٰذا اسی کی قربانی کو اللہ کے حضور شرف قبولیت بخشا گیا اس کے مقابلہ میں قابیل بے انصاف اور اچھے کردار کا مالک نہ تھا اور قربانی میں بھی ناقص اور ردی قسم کی اشیاء رکھی تھیں۔ لہٰذا اس کی قربانی کی چیزیں جوں کی توں پڑی رہیں گویا اس قربانی کی کسوٹی نے بھی ہابیل ہی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔