قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ
انھوں نے کہا اے موسیٰ ! بے شک اس میں ایک بہت زبردست قوم ہے اور بے شک ہم ہرگز اس میں داخل نہ ہوں گے، یہاں تک کہ وہ اس سے نکل جائیں، پس اگر وہ اس سے نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہونے والے ہیں۔
[٥٣] وفد کی رپورٹ اور جہاد سے انکار :۔ لیکن ان لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام کے حکم کی خلاف ورزی کی اور جب فلسطین کے علاقہ کا دورہ کر کے واپس آئے، تو اس کی رپورٹ خفیہ طور پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دینے کی بجائے ہر ایک کو وہاں کے حالات بتانا شروع کردیئے۔ اور وہ رپورٹ یہ تھی کہ فلسطین کا علاقہ واقعی بڑا زرخیز و شاداب ہے۔ وہاں پانی اور دودھ کی نہریں بہتی ہیں لوگوں کی معاشی حالتاچھی ہے لیکن وہ لوگ بڑے طاقتور، زور آور اور قدآور ہیں۔ ہم ان کے مقابلہ میں ٹڈے معلوم ہوتے تھے اور وہ بھی ہمیں ٹڈے ہی سمجھتے تھے۔ لہٰذا ان لوگوں پر فتح حاصل کرنا ہماری بساط سے باہر ہے اور موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ان طاقتور لوگوں کی موجودگی میں ہمارا وہاں داخل ہونا اور پھر مقابلہ کر کے فتح یاب ہونا ناممکنات سے ہے اور اگر اللہ نے یہ علاقہ ہمارے مقدر میں لکھا ہوا ہے تو وہ کوئی ایسا انتظام کر دے کہ وہ وہاں سے نکل جائیں تو تب ہی ہم اس میں داخل ہو سکتے ہیں۔