سورة المآئدہ - آیت 13

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو ان کے اپنے عہد کو توڑنے کی وجہ ہی سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا کہ وہ کلام کو اس کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں اور وہ اس میں سے ایک حصہ بھول گئے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی اور تو ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی خیانت کی خبر پاتا رہے گا، سوائے ان کے تھوڑے سے لوگوں کے، سو انھیں معاف کردے اور ان سے درگزر کر۔ بے شک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٧] بنی اسرائیل کی اپنے عہد کی ایک ایک شق کی خلاف ورزی :۔ بنی اسرائیل نے اپنے اس مضبوط عہد کی چنداں پروا نہ کی۔ قیام صلٰوۃ اور ایتائے زکوٰۃ میں غفلت برتی۔ زکوٰۃ کے بجائے بخل کی راہ اختیار کی اور قرضہ حسنہ دینے کی بجائے سود خوری اور حرام خوری شروع کردی۔ اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا تو درکنار، جی بھر کر ان کی مخالفت کی اور بعض انبیاء کو ناحق قتل بھی کرتے رہے غرض یہ کہ اس عہد کی ایک ایک شق کو توڑنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی جس کے عوض ہم نے ان پر لعنت کی اور انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا اور دوسری سزا یہ دی کہ ان کے دل سخت بنا دیئے جس کی وجہ سے ایک تو راہ حق قبول کرنے سے قاصر ہوگئے دوسرے آپس میں الفت و موانست کے جذبات کے بجائے ان میں خود غرضی، سنگدلی اور باہمی منافرت نے راہ پا لی۔ [٣٨] ان دونوں سزاؤں کے مزید نتائج یہ نکلے کہ ان لوگوں نے کتاب اللہ میں تحریف شروع کردی۔ فلسفیانہ موشگافیاں اور خود غرضانہ تاویلات کے ذریعہ کتاب کی اکثر آیات کا مفہوم ہی بدل ڈالا اور اسے کچھ کا کچھ بنا دیا اور دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں کہا تو یہ گیا تھا کہ وہ کتاب اللہ سے نصیحت اور عبرت حاصل کریں۔ یہ بات تو انہوں نے یکسر چھوڑ ہی دی اور اسکے بجائے اپنا سارا زور الفاظ کی گتھیوں کو سلجھانے میں صرف کرنے لگے اور ایسا مطلب اخذ کرنا شروع کیا جو انکی خواہش کے مطابق ہو (نیز دیکھئے سورۃ نساء کا حاشیہ نمبر ٧٧۔ ا) [٣٩] یہ چند آدمی عبداللہ بن سلام اور انہی کا سا راست باز ذہن رکھنے والے کچھ ساتھی تھے۔ ان کے علاوہ جتنے بھی یہودی تھے سب سازشیقسم کے لوگ، بدعہد اور خائن تھے اور موقع بہ موقع مسلمانوں کو ان کی سازشوں، کرتوتوں، بدعہدیوں اور خیانتوں کا از خود ہی پتا چلتا رہتا تھا۔ پھر چونکہ یہودیوں کی اکثریت ایسے ہی بدعہد اور خائن قسم کے لوگوں پر مشتمل تھی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ ان کی ہر قابل گرفت بات سے دل گرفتہ ہوں گے تو آپ کو یہ ایک الگ پریشانی لاحق ہوجائے گی لہٰذا ان کی باتوں کو درخور اعتناء سمجھنا چھوڑ دیجئے اور جن جن خیانتوں پر آپ مطلع ہوتے رہتے ہیں ان سے محاسبہ نہ کیجئے۔ اللہ خود ان سے نمٹ لے گا۔ آپ درگرز اور احسان کی راہ اختیار کیجئے۔ کیونکہ یہی راہ اللہ کو پسند ہے۔