وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو اور اس کا عہد جو اس نے تم سے مضبوط باندھا، جب تم نے کہا ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔
[٢٩] یعنی تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ قبائلی عصبیتوں نے تمہیں عداوتوں اور لڑائیوں میں پھنسا کر تمہاری زندگی تم پر حرام کردی تھی اور تم ان حالات سے نجات کی راہ سوچتے تھے مگر ایسی کوئی راہ تمہیں نظر نہیں آتی تھی۔ پھر اللہ نے تم پر پے در پے کئی احسانات کیے۔ تمہیں اسلام کی توفیق بخشی پھر اسی اسلام کی وجہ سے تمہاری دیرینہ اور مسلسل عداوتوں کا خاتمہ کر کے تمہیں ایک دوسرے کا مونس و غمخوار اور بھائی بھائی بنا دیا۔ [٣٠] بیعت عقبہ کا عہد :۔ یعنی وہ پختہ عہد جو تم نے عقبہ کی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تھا کہ ہم ہر حال میں آپ کی فرمانبرداری کریں گے واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ کے بعد بھی جس شخص سے بیعت لی اسی عہد پر بیعت لی۔ اور خلفائے راشدین بھی اسی عہد پر مسلمانوں سے بیعت لیتے رہے۔ امیر کی اطاعت سے ہی جماعت کا نظم و نسق اور امت میں اتحاد قائم رہ سکتا ہے اسی لیے حضور نے امیر کی اطاعت کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی آیت ٥٩ کا حاشیہ نمبر ٩١ ملاحظہ فرمایا جائے۔ بیعت عقبہ کے عہد اور اس کے پس منظر کو ہم ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ١٠ نبوی میں ابو طالب کی وفات ہوگئی۔ پھر اس کے چند ہی دن بعد آپ کی ہمدرد اور غمگسار بیوی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ بھی وفات پا گئیں گھر کی دنیا میں سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سہارا تھیں اور باہر کی دنیا میں ابو طالب۔ چند دنوں کے وقفہ سے یہ دونوں سہارے چھن گئے۔ گویا آپ پر غم و الم ٹوٹ پڑا۔ اسی وجہ سے اس سال کا نام ہی عام الحزن پڑگیا۔ ابو طالب کی وفات کے بعد مشرکین مکہ کے حوصلے بڑھ گئے۔ اور وہ مسلمانوں پر مزید تشدد کی تجویز سوچنے لگے اور یہ بھی کہ اب پیغمبر اسلام کو ٹھکانے لگانے کا بہترین موقع میسر آ گیا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت تو پہلے ہی حبشہ کی طرف ہجرت کرچکی تھی اور جو باقی تھے ان کی اب زندگی بھی خطرہ میں تھی۔ ان حالات میں آپ نے مناسب سمجھا کہ اب مکہ سے باہر کسی مقام پر تبلیغ کے لیے مرکز بنانا چاہیے۔ اور اس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے جڑواں شہر طائف کا انتخاب کیا جو ایک زرخیز اور شاداب علاقہ تھا۔ اہل مکہ کے رئیسوں کی وہاں جائیدادیں بھی تھیں اور رشتے ناطے کے علاوہ تجارتی تعلقات بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلام زید بن حارثہ کو اپنے ہمراہ لیا اور طائف کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں جہاں موقع میسر آتا تبلیغ کرتے جاتے تاآنکہ بیس دن کی پیدل مسافت کے بعد آپ طائف پہنچ گئے۔ طائف میں بنو ثقیف آباد تھے اور تین بھائی مسعود، حبیب اور عبد یا لیل اس شہر کے سردار اور رؤسائے مکہ کے ہمسر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ کا پیغام سنایا اور اسلام کی دعوت دی۔ وہ اہل مکہ سے گونا گوں تعلقات کی بنا پر پہلے سے ہی مکہ اور اہل مکہ کے حالات سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے بھی قریش مکہ ہی کی روش اختیار کی اور نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹھکرا دیا بلکہ بڑی بدتمیزی سے پیش آئے اور گستاخانہ جواب دیئے۔ ایک بھائی نے کہا : اگر واقعی تمہیں اللہ نے بھیجا ہے تو بس پھر وہ کعبہ کا غلاف نچوانا چاہتا ہے۔ دوسرے نے کہا : کیا اللہ میاں کو رسالت کے لیے تیرے سوا کوئی مناسب آدمی نہ مل سکا۔ تیسرا بولا : اللہ کی قسم! میں تجھ سے بات نہیں کروں گا۔ کیونکہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو پھر آپ کو جواب دینا مناسب نہیں ہے اور اگر تم (نعوذ باللہ) جھوٹے ہو تو پھر اس قابل نہیں کہ تم سے بات کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت بردباری سے انہیں جواب دیا کہ اگر تم مجھے رسول ماننے کو تیار نہیں تو کم از کم میری راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کو دعوت دینا اور وعظ و نصیحت شروع کردی۔ ان بدبختوں نے اپنے غلاموں، خادموں اور شہر کے اوباش لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھیج دیا کہ وہ آپ کو طائف سے باہر نکال دیں۔ چنانچہ ان اوباشوں کا غول آپ کے پیچھے لگ گیا۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے، شور مچاتے اور پتھر مارتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نڈھال ہوجاتے تو یہ غنڈے آپ کو بازو سے پکڑ کر اٹھا دیتے اور پھر ٹخنوں پر پتھر مارتے اور تالیاں بجا بجا کر ہنستے۔ خون بے تحاشا بہہ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں اندر اور باہر سے لتھڑ گئیں۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باغ کے احاطہ میں پناہ لی۔ یہ باغ رئیس مکہ عتبہ بن ربیعہ اور اسکے بھائی شیبہ کا تھا۔ عتبہ ایک رحم دل انسان تھا۔ اس نے یہ حالت دیکھی تو اپنے غلام عداس کے ہاتھ ایک پلیٹ میں انگور بھجوائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوروں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہی پہلے بسم اللہ پڑھا پھر انگور کھانا شروع کئے۔ عداس کہنے لگا۔ اللہ کی قسم! یہ کلمہ یہاں کے لوگ تو کبھی نہیں کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا مذہب کیا ہے؟ وہ بولا میں عیسائی ہوں اور نینوا کا باشندہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : گویا تم مرد صالح یونس بن متیٰ کے شہر کے ہو۔ وہ میرا بھائی ہے۔ وہ بھی نبی تھا اور میں بھی نبی ہوں۔ غلام نے یہ سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ عتبہ اور شیبہ نے یہ ماجرا دیکھا تو جب عداس واپس آیا تو اسے ملامت کی اور کہا کہ تم یہ کیا حرکت کر رہے تھے۔ تم نے اپنا مذہب خراب کرلیا ہے۔ عداس نے جواب دیا کہ اس شخص نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جو صرف ایک نبی ہی بتاسکتا ہے۔ اس سفر میں آپ کو جتنی اذیت اٹھانی پڑی اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوجاتا ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ ! میں نے تیری قوم (قریش) کی طرف سے جو جو تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ میرا ہی دل جانتا ہے۔ سب سے زیادہ سخت دن مجھ پر طائف کا دن گزرا ہے جب میں نے اپنے تئیں عبد یا لیل بن کلال پر پیش کیا۔ اس نے میری دعوت کو قبول نہ کیا تو میں افسردہ خاطر ہو کر واپس ہوا اور مجھے اس وقت قدرے افاقہ ہوا جب میں قرن ثعالب (ایک مقام کا نام) پہنچ گیا۔ میں نے اوپر سر اٹھایا تو دیکھا کہ ابر کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اور اس میں جبریل موجود ہیں۔ جبریل نے مجھے پکارا اور کہا کہ تمہاری قوم نے جو تجھے جواب دیا وہ اللہ نے سن لیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کو تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ جیسا چاہیں اسے حکم دیں۔ اتنے میں پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے سلام کہا اور کہنے لگا۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ چاہیں تو میں مکہ اور طائف کے پہاڑوں کو ملا کر سب کو چکنا چور کر دوں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایسا مت کرو) بلکہ مجھے امید ہے کہ ان کی اولاد میں سے اللہ ایسے لوگ پید اکرے گا جو صرف اکیلے اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ (بخاری۔ کتاب باب اذا قال احدکم آمین والملئکۃ فی السماء۔۔) (مسلم۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب مالقی النبی من اذی المشرکین والمنافقین ) اس متفق علیہ حدیث سے معلوم ہوا کہ طائف کا دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سخت اور مشکل ترین دن تھا۔ حتیٰ کہ احد کے دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے تھے اس سے سخت دن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جس صبر و استقامت کا ثبوت دیا۔ اور انتقام کا اختیار مل جانے کے باوجود جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عفوو درگزر سے کام لیا وہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ عظمت کی دلیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش مکہ کی طرف سے اسلام لانے سے تو مایوس ہو ہی چکے تھے اس واقعہ طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم و اندوہ میں مزید اضافہ کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ واپس آئے تو دامن حرمین میں ٹھہر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بچے مکہ میں تھے اور مکہ والے آپ کے جانی دشمن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو خزاعہ کے ایک آدمی کے ہاتھ اخنس بن شریق کو پیغام بھیجا کہ وہ مکہ میں آپ کو پناہ دے۔ اخنس نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ میں حلیف ہوں اور حلیف پناہ نہیں دے سکتا۔ پھر آپ نے یہی پیغام سہیل بن عمرو کو بھیجا۔ اس نے بھی یہ کہہ کر معذرت کردی کہ بنو عامر کی دی ہوئی پناہ بنو کعب پر لاگو نہیں ہوتی۔ پھر آپ نے یہی پیغام مطعم بن عدی کو بھیجا۔ جس نے پناہ دینا منظور کرلیا۔ اور اپنے بیٹوں اور قوم کے لوگوں کو بلا کر کہا کہ ہتھیار بند ہو کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہوجاؤ۔ کیونکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پناہ دے دی ہے۔' اس انتظام کے بعد اس نے آپ کو پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لا سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے اور حرم میں داخل ہوگئے۔ مطعم بن عدی نے اپنی سواری پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو! میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پناہ دی ہے۔ (سیرۃ النبی ١ : ٣٥٦ بحوالہ ابن سعد ص ١٤٢) اس کے بعد آپ حجر اسود پر پہنچے۔ اسے چوما۔ نماز پڑھی۔ پھر اپنے گھر تشریف لے گئے۔ اس دوران مطعم کے بیٹوں نے ہتھیار بند ہو کر آپ کا پہرہ دیا۔ اس کے بعد مکی دور کا باقی حصہ آپ مطعم کی پناہ میں مکہ میں قیام پذیر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر مطعم کے اس احسان کو نہیں بھولے۔ جنگ بدر میں بہت سے مشرک قید ہوگئے تھے۔ ان میں سے بعض کی سفارش کے لیے مطعم کے بیٹے سیدنا جبیر (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر آج مطعم زندہ ہوتے اور ان ناپاک قیدیوں کے متعلق بات کرتے تو میں ان سب کو چھوڑ دیتا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ البدر) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مکہ واپس آئے تو حج کا موسم شروع ہوچکا تھا۔ آپ بغرض تبلیغ منیٰ تشریف لے گئے۔ اور مدینہ کے قبیلہ اوس کے آدمیوں کو اسلام کی دعوت دی۔ مدینہ میں قبیلہ اوس اور خزرج میں سال ہا سال سے خانہ جنگی چلی آ رہی تھی۔ جس سے سنجیدہ طبقہ سخت نالاں تھا لیکن اسے اس سے نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ یہ لوگ دراصل حج کے علاوہ اس غرض سے بھی آئے تھے کہ خزرج کے خلاف قریش مکہ کی مدد حاصل کریں جب ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی اور اس کے احکام بتائے تو اوس کے قبیلہ کا ایک ذہین آدمی کہنے لگا۔ واللہ ! جس کام کے لیے تم آئے ہو اس سے یہ کام بہتر ہے۔ یعنی ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں وہ بات نظر آ گئی جس کی انہیں مدتوں سے تلاش تھی کہ خانہ جنگیوں سے کس طرح چھٹکارا مل سکتا ہے۔ چنانچہ ذی الحجہ ١٠ نبوی میں اسی مقام پر جسے عقبہ کہتے ہیں۔ پانچ اور بعض روایات کے مطابق چھ آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ امید کی پہلی کرن تھی جو اس عام الحزن کے آخر میں نمودار ہوئی۔ ان آدمیوں کے ذریعہ قبیلہ خزرج میں بھی اسلام کی اشاعت ہوئی۔ یہ لوگ ایک تو باہمی خانہ جنگی سے پریشان تھے۔ کہ مدینہ کے یہودی قبائل ایک دوسرے سے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے چنانچہ اگلے سال یعنی ذی الحجہ ١١ ھ میں اسی مقام پر اوس اور خزرج کے بارہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر اسلام لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر باضابطہ بیعت کی جو بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی شرائط یہ تھیں کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے، چوری اور زنا کے مرتکب نہ ہوں گے۔ لڑکیوں کو زندہ درگور نہیں کریں گے۔ کسی پر تہمت نہیں لگائیں گے۔ کسی کی غیبت نہ کریں گے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حکم مانیں گے۔ یہ بیعت گئی رات نہایت خفیہ انداز میں ہوئی تھی۔ ان نو مسلم صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ کسی معلم کو بھیجا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو قرآن کے احکام سکھانے اور تبلیغ کے لیے مدینہ روانہ فرمایا۔ مصعب مدینہ میں اسعد بن زرارہ کے مکان پر قیام پذیر ہوئے جو مدینہ کے ایک معزز رئیس تھے۔ یہ وہی مصعب بن عمیر ہیں جو مکہ کے ایک امیر گھرانہ کے چشم و چراغ تھے۔ بڑے خوش شکل اور حسین نوجوان تھے اور قیمتی لباس پہنتے تھے۔ مگر جب اسلام قبول کیا تو ماں نے ان کا دانہ پانی بھی بند کردیا اور گھر سے باہر نکال دیا تھا۔ انہوں نے دین حق کی خاطر سب کو برداشت کیا اور امیری پر فقیری کو ترجیح دی۔ انہیں مدینہ میں اسلام کا پہلا داعی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ غزوہ بدر میں لشکر اسلام کی علمبرداری کے منصب پر فائز ہوئے اور غزوہ احد میں شہادت پائی تھی ان کی کوششوں سے مدینہ سے قبا تک گھر گھر اسلام پھیل گیا۔ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے ان دو سرداروں کے ذریعہ اسلام کی قوت میں خاصا اضافہ ہوا چنانچہ اگلے سال مدینہ کے ٧٥ افراد جن میں دو عورتیں بھی شامل تھیں۔ مکہ میں حج کے موقع پر ایام تشریق میں عقبہ کے مقام پر (جو منیٰ اور مکہ کے درمیان ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ یہ بیعت بھی تہائی رات گزرنے کے بعد نہایت خفیہ انداز سے ہوئی اور بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس بیعت کی سب سے اہم شرط جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی زبانی سنیے۔ جو بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شریک تھے اور انکی اس ہدایت کو بخاری اور مسلم دونوں نے ذکر کیا ہے : عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جو حکم دیں گے ہم مانیں گے۔ چاہے آسانی ہو یا تنگی ہو، خواہ وہ ہمیں اچھی لگے یا ناگوار محسوس ہو۔ خواہ آپ دوسروں کو ہم پر ترجیح دیں اور جس کو بھی آپ امیر مقرر فرمائیں گے ہم اس کا حکم مانیں گے اس سے بحث نہیں کریں گے اور ہر صورت میں حق بات ہی کہیں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ۔۔) اور اس شرط کی اہمیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ٧٥ آدمیوں میں سے انصار کی مرضی کے مطابق ١٢ نقیب یا امیر مقرر فرما دیئے تھے تاکہ اسلام کی انقلابی تحریک کا جو کام ہو وہ نظم و ضبط کے تحت ہو۔ اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ خود بھی نقیب مقرر کئے گئے تھے۔ کتب سیر میں جو مزید تفصیلات ملتی ہیں وہ یہ ہیں کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دی تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : اے گروہ انصار! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان میں معزز محترم ہیں۔ دشمنوں کے مقابلہ میں ہم ہمیشہ ان کے لیے سینہ سپر رہے۔ اب وہ تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں۔ اگر مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ ابھی جواب دے دو۔ انصار نے اس بات کا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو تو جواب نہیں دیا البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جو عہد لیں ہم حاضر ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس بات کا عہد کرو تم دین حق کی اشاعت میں میری پوری پوری مدد کرو گے اور جب میں تمہارے ہاں آ بسوں تو تم اپنے اہل وعیال کی طرح میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت کرو گے۔ انصار نے پوچھا کہ اس کے عوض ہمیں کیا ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جنت‘‘ ایک انصاری ابو الہیشم نے بات کاٹ کر کہا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ جب آپ کو قوت اور اقتدار حاصل ہوجائے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن واپس چلے جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا۔ ایسا نہیں ہوگا۔ میرا مرنا اور میرا جینا تمہارے ہی ساتھ ہوگا۔ عہد و بیان کی یہ جزئیات طے ہونے کے بعد سب سے پہلے براء بن عازب بن معرور رضی اللہ عنہ نے پھر سب ساتھیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ یہ عہد و پیمان اگرچہ انتہائی راز داری اور خفیہ طریقہ سے طے پائے تھے۔ تاہم مشرکین مکہ کو اس کی بھنک پڑگئی۔ چنانچہ کافروں کا ایک وفد قبیلہ خزرج کے ہاں پہنچ گیا۔ خزرج کے مشرکین چونکہ خود بھی اس معاہدہ کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے لہٰذا انہوں نے اس وفد کو یقین دہانی کرا دی کہ ایسا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔ لہٰذا یہ وفد واپس لوٹ آیا۔ البتہ اس واقعہ کا یہ اثر ضرور ہوا کہ خزرج کے مسلمان چوکنے ہوگئے اور انہوں نے جھٹ مدینہ کی راہ لی۔ بعد میں مشرکین مکہ کو معلوم ہوگیا کہ معاہدہ والی بات محض افواہ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی تھی۔ لہٰذا وہ خزرج کے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ مگر مسلمان تیز رفتاری سے آگے جا چکے تھے۔ البتہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اسلام لا چکے تھے پکڑے گئے۔ مشرکوں نے انہیں زدوکوب کرنا چاہا تو مطعم بن عدی اور حرب بن امیہ آڑے آ گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ قریش کے تجارتی قافلے سعد بن عبادہ کی پناہ میں ہی مدینہ کے پاس سے گزرتے تھے لہٰذا مشرکوں کو اپنا غیظ و غضب ضبط کرنا پڑا۔ اس طرح تمام مسلمان بخیر و عافیت مدینہ پہنچ گئے۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بعد عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے۔ یہ دونوں حضرات مدینہ کے مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کے بعد عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، بلال بن رباح رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے، ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیس مسلمانوں کے ہمراہ مکہ کے قریشیوں کو للکارتے ہوئے ہجرت کے لیے نکلے اور مدینہ پہنچے اور آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورۃ اعلیٰ بروایت براء بن عازب) اس طرح اسلام کی انقلابی تحریک کا مرکز مکہ سے مدینہ منتقل ہوگیا۔