سورة البقرة - آیت 60

وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی اس پتھر پر مار، تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، بلاشبہ سب لوگوں نے اپنی پینے کی جگہ معلوم کرلی، کھاؤ اور پیو اللہ کے دیے ہوئے میں سے اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٦] بارہ چشموں کا پھوٹنا :۔ یہ واقعہ بھی اسی وادی سینا میں پیش آیا۔ سایہ اور غذا کے علاوہ انہیں پانی کی بھی شدید ضرورت تھی اور وہاں دور تک کہیں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام سے پانی کی شکایت کی تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پانی کے لیے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک چٹان سے اتنی کثیر اور وافر مقدار میں پانی نکالا جو اس لاکھوں کے لشکر کی روزانہ ضروریات کے لیے کافی ہوتا تھا۔ یہ قوم بارہ قبیلوں میں منقسم تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس چٹان میں ١٢ ہی چشمے رواں کردیے۔ کوئی شگاف بڑا تھا، کوئی چھوٹا اور یہی صورت ان بارہ قبیلوں کے افراد کی تعداد کی تھی۔ پانی کی اس طرح تقسیم سے ان میں پانی پر باہمی جھگڑے کے امکانات ختم ہوگئے۔ یہ چٹان اب بھی جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ جسے سیاح جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگافوں کے نشان اب بھی اس میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ [٧٧] یعنی یہ خداداد مفت کی نعمتیں جو تمہیں مہیا ہیں۔ ایک دوسرے سے چھین کر یا چرا کر خواہ مخواہ فتنہ اور جھگڑے کے مواقع پیدا نہ کرتے رہنا۔ فساد فی الارض کیا ہے؟ فساد فی الارض کی مذمت تو سبھی کرتے ہیں، مگر فساد فی الارض ہے کیا چیز؟ اس بات کی تعیین میں ہر شخص کے نقطہ نظر کے مطابق اختلاف واقع ہوجاتا ہے۔ عموماً فساد فی الارض کا مطلب چوری، ڈاکہ، لوٹ مار، قتل و غارت اور ایک دوسرے کے حقوق کو غصب کرنا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ فساد فی الارض کا صرف ایک پہلو ہے۔ مدینہ کے مسلمانوں نے منافقوں سے کہا کہ زمین میں فساد نہ کرو، تو وہ کہنے لگے کہ ہم مفسد کب ہیں؟ بلکہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ (٢ : ١١) موسیٰ علیہ السلام فرعون، قارون اور ہامان کو مفسد قرار دیتے تھے تو فرعون اور اس کے درباری سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں کو فسادی قرار دیتے تھے۔ فرعون کے درباریوں نے فرعون سے کہا کہ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ وہ زمین میں فساد مچاتے پھریں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں؟تو اس فرعون نے اس قسم کے فساد فی الارض کی اصلاح کا طریقہ سوچ کر کہا کہ ’’ہم لوگ ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رکھیں گے اور ہم ان لوگوں پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔‘‘ (٧ : ١٢٧) ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کے نقطہ نظر کے مطابق فساد فی الارض اور اصلاح دونوں کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ فساد فی الارض حقیقتاً ہے کیا چیز؟ اس سوال کا جواب بالکل آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت اور اس کے نظام امن میں خلل ڈالنے والا مفسد یا فسادی ہوتا ہے۔ فرعون کو چونکہ موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم سے بغاوت کا خطرہ تھا۔ لہٰذا اس نے انہیں مفسد قرار دے دیا اور شرعی نقطہ نظر سے حاکم مطلق اور مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لحاظ سے جو شخص بھی اللہ کے اور بندوں کے آپس میں باہمی حقوق پر ڈاکہ ڈالے گا۔ وہ فساد فی الارض کا مجرم ہوگا اور اسی لحاظ سے اللہ کے ساتھ شرک کرنا فساد فی الارض کی سب سے بڑی قسم قرار پاتا ہے اور اللہ کے دین کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں یا خفیہ مشورے کرنا یا بغاوت کرنا بھی اتنا ہی شدید جرم ہے جتنا ڈاکہ ڈالنا یا چوری و زنا کرنا۔ اس فرق کو ہم یوں بھی واضح کرسکتے ہیں کہ شرک اور زنا بالرضا ایک دنیا دار معاشرہ میں جرم نہیں سمجھا جاتا۔ جب کہ شرعی نقطہ نظر سے یہی باتیں فساد فی الارض میں سرفہرست شمار ہوتی ہیں۔ نیز ایک دین بیزار حکومت کے خلاف جہاد کرنا اس حکومت کے نظریہ کے مطابق بغاوت اور بہت بڑا جرم ہے۔ جبکہ شرعی نقطہ نظر سے یہ فساد فی الارض کے خاتمہ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس وضاحت سے آپ قرآن میں مختلف مقامات پر مذکور فساد فی الارض کا مفہوم آسانی سے سمجھ سکیں گے۔