يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہہ دے تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جو تم نے سدھائے ہیں، (جنھیں تم) شکاری بنانے والے ہو، انھیں اس میں سے سکھاتے ہو جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے تو اس میں سے کھاؤ جو وہ تمھاری خاطر روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام ذکر کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
[٢٢] ہر چیز کی اصل اباحت ہے :۔ اس آیت میں کھانے پینے کی اشیاء کی حلت و حرمت کے متعلق ایک عظیم الشان اصول دیا گیا ہے جسے فقہی زبان میں یوں ادا کیا جاتا ہے کہ ’’ہر چیز کی اصل اباحت ہے‘‘ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے پینے کی تمام اشیاء دو شرطوں کے ساتھ تمہارے لیے حلال ہیں ایک یہ کہ وہ چیز پاکیزہ اور صاف ستھری ہو گندی باسی۔ سڑی ہوئی اور بدبودار نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کے متعلق شریعت میں یہ صراحت نہ ہو کہ وہ حرام ہے اس طرح حرام اشیاء کا دائرہ بہت محدود ہوجاتا ہے اور حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ جبکہ اس آیت کے نزول سے پہلے عموماً یہی سمجھا جاتا تھا کہ حلال صرف وہ چیز ہو سکتی ہے جس کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت موجود ہو۔ جیسا کہ اس آیت میں مسلمانوں کے یہی سوال کرنے سے بھی ظاہر ہوتا ہے اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ نظریہ کو بدل کر اور حلال اشیاء کا دائرہ وسیع کر کے مسلمانوں پر احسان عظیم فرمایا ہے۔ [٢٣] شکار کے متعلق احکام :۔ شکاری جانوروں میں پرندے بھی شامل ہیں جیسے باز اور شکرا وغیرہ۔ یعنی کتا، چیتا، باز، شکرا جسے بھی یہ بات سکھائی گئی ہو کہ وہ شکار کو اپنے مالک کے لیے روک رکھے گا۔ خود اس میں سے کچھ نہ کھائے گا۔ اس آیت کی تشریح کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو چھوڑو اور ان پر اللہ کا نام لو تو ان کا کیا ہوا شکار کھالو۔ ‘‘ (مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الصید۔ باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمی ) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم اپنا تیر چھوڑو تو بسم اللہ کہہ لو۔‘‘ (مسلم۔ ایضاً) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم تیر چھوڑو اور شکار غائب ہوجائے تو جب ملے اسے کھا سکتے ہو بشرطیکہ سڑ نہ جائے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الصید و الذبائح، باب اذاغاب عنہ الصید ثم وجدہ) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم شکار پر تیر چھوڑو۔ پھر اس شکار کو ایک یا دو دن کے بعد پاؤ۔ پھر دیکھو کہ اس پر تمہارے تیر کے علاوہ کوئی اور نشان نہیں تو اسے کھا سکتے ہو۔ اور اگر وہ شکار پانی میں گر پڑا ہو تو اسے مت کھاؤ۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الذبائح والصید۔ باب الصید اذا غاب عنہ یومین اوثلاثہ) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری (پھینک کر شکار کرنے) سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اس کے ذریعہ شکار نہ کیا جائے۔ (بخاری۔ کتاب الذبائح والصید۔ باب الخذف والبندقۃ۔ مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب اباحۃ مایستعان بہ علی الاصطیاد) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کردیا ہے لہٰذا جب تم کسی جاندار کو مارو یا ذبح کرو تو احسن طریقہ سے مارو (یعنی اپنی چھری وغیرہ کو خوب تیز کرلو۔ تاکہ اس مذبوحہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو) ‘‘(مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الامر باحسان الذبح والقتل )