إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا
بے شک منافق لوگ اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ وہ انھیں دھوکا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔
[١٨٩] یعنی منافقوں کا تو کام ہی فریب کاریوں سے اپنا مفاد حاصل کرنا ہے اور جو سازشیں کرتے رہتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بذریعہ وحی مطلع کردیتا ہے تو یہ اپنی سازش میں نامراد رہنے کے علاوہ مسلمانوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا بھی ہوجاتے ہیں پھر کوئی اور پینترا بدل لیتے ہیں تو کافران سے بدظن ہوجاتے ہیں اس طرح ان کی فریب کاریوں کا وبال انہی پر ہی پڑتا رہتا ہے۔ [١٩٠] منافق کی نماز اور ان کا کردار :۔ نماز اسلام کا اہم رکن ہے اور مومن اور کافر میں فرق کرنے کے لیے یہ ایک فوری امتیازی علامت ہے منافقین چونکہ اسلام کے مدعی تھے لہٰذا انہیں نماز ضرور ادا کرنا پڑتی تھی کیونکہ جو شخص نماز باجماعت میں شامل نہ ہوتا تو فوراً سب کو اس کے نفاق کا شبہ ہونے لگتا تھا۔ لیکن ایک مومن اور منافق کی نماز میں فرق ہوتا تھا۔ مومن بڑے ذوق و شوق سے آتے اور وقت سے پہلے مسجدوں میں پہنچ جاتے۔ نماز نہایت اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے اور نماز کے بعد بھی کچھ وقت ذکر اذکار میں مشغول رہتے اور مسجدوں میں ٹھہرے رہتے تھے۔ ان کی ایک ایک حرکت سے معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں واقعی نماز سے دلچسپی ہے اس کے برعکس منافقوں کی یہ حالت تھی کہ اذان کی آواز سنتے ہی ان پر مردنی چھا جاتی۔ دل پر جبر کر کے مسجدوں کو آتے۔ نماز میں خشوع و خضوع نام کو نہ ہوتا تھا۔ دلوں میں وہی مکاریوں اور فائدہ کے حصول کے خیالات اور نماز ختم ہوتے ہی فوراً گھروں کی راہ لیتے۔ ان کی تمام حرکات و سکنات اور ان کے ڈھیلے پن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں نہ نماز کی اہمیت کا احساس ہے نہ اللہ سے کچھ محبت ہے اور نہ ہی اللہ کے ذکر سے کوئی رغبت ہے۔ وہ مسجدوں میں آتے ہیں تو محض حاضری لگوانے کے لیے اور نماز پڑھتے ہیں تو دکھانے کے لیے۔ علاوہ ازیں منافقین نماز باجماعت کا التزام بھی کم ہی کرتے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث میں منافقوں کی اسی کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’منافق کی نماز یہ ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آ جاتا ہے تو اٹھ کر (نماز عصر کے لیے) چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اس میں اللہ کو کم ہی یاد کرتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ۔ باب استحباب التبکیر بالعصر) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’منافقوں پر کوئی نماز صبح اور عشاء کی نماز سے زیادہ بھاری نہیں۔ اور اگر لوگ اس ثواب کو جانتے جو ان نمازوں میں ہے تو گھسٹ کر بھی پہنچتے۔ اور میں نے ارادہ کیا کہ موذن سے کہوں وہ تکبیر کہے اور کسی کو لوگوں کی امامت کا حکم دوں اور آگ کا شعلہ لے کر ان لوگوں (کے گھروں) کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلتے۔‘‘(بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلوۃ العشاء فی الجماعۃ)