الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا
وہ جو تمھارے بارے میں انتظار کرتے ہیں، پھر اگر تمھارے لیے اللہ کی طرف سے کوئی فتح ہوجائے تو کہتے ہیں کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کو کوئی حصہ مل جائے تو کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہیں ہوگئے تھے اور ہم نے تمھیں ایمان والوں سے نہیں بچایا تھا۔ پس اللہ تمھارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا اور اللہ کافروں کے لیے مومنوں پر ہرگز کوئی راستہ نہیں بنائے گا۔
[١٨٧] منافقوں کی مفاد پرستی :۔ منافقین کا طبقہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی موجود تھا اور ہر دور میں موجود رہتا ہے اور آج بھی موجود ہے۔ ان میں ایمان نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ ان کا ایمان صرف مفاد کا حاصل کرنا ہوتا ہے اور اصول، جھوٹ اور مکر و فریب ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بس ہوا کا رخ دیکھتے رہتے ہیں۔ جدھر سے مفاد حاصل ہونے کی توقع ہو فوراً باتیں بنا کر ادھر لڑھک جاتے ہیں۔ اس آیت میں دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے منافقوں کا حال بیان کیا گیا ہے اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہو تو مال غنیمت میں سے حصہ لینے کی غرض سے کہتے ہیں کہ آخر ہم بھی تو مسلمان اور تمہارے ساتھی ہیں لہٰذا ہمیں بھی حصہ ملنا چاہیے۔ اور کافروں کو فتح ہو تو ان سے جا ملتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہارے ساتھ ہماری ہمدردیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ تمہیں فتح حاصل ہوگئی۔ ورنہ اگر ہم دل جمعی سے مسلمانوں کا ساتھ دیتے تو فتح پانا تو درکنار مسلمان تمہارا کچومر نکال دیتے لہٰذا ہمیں تم کیسے نظر انداز کرسکتے ہو۔ اس طرح وہ دونوں طرف سے مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور آج کل ہمارے یہاں مفاد پرستوں کی ایک کثیر جماعت دو سیاسی پارٹیوں کے درمیان پھرتی رہتی ہے۔ ہوا کا رخ دیکھتے ہی فوراً اپنی پارٹی بدل کر ایسی پارٹی میں جا شامل ہوتے ہیں جو برسراقتدار ہو یا اس کے برسراقتدار آنے کی توقع ہو۔ ایسے لوگوں کے لیے ''لوٹا'' کی سیاسی اصطلاح وضع کی گئی ہے جو ''بے پیندا لوٹا'' کے محاورہ کا اختصار ہے جو ہر طرف لڑھکتا رہتا ہے۔ ان لوگوں کا دین و ایمان صرف پیسہ اور دوسرے مفادات ہوتے ہیں، جدھر سے زیادہ مل جائیں ادھر چلے جاتے ہیں۔ [١٨٨] اسی مضمون کو متعدد آیات میں دوسرے الفاظ سے دہرایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کافر اور منافق اللہ کے نور کو بجھانے کی جتنی بھی سر توڑ کوششیں کرسکتے ہیں، کر کے دیکھ لیں، اللہ اپنے اس ہدایت کے نور کو پورا کر کے رہے گا۔ بالآخر تمام ادیان پر اللہ کا دین ہی غالب ہو کر رہے گا۔ ایسی صورت ناممکن ہے کہ کافر مسلمانوں پر غالب آ جائیں۔