الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا
وہ جو کافروں کو مومنوں کے سوا دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں؟ تو بے شک عزت سب اللہ کے لیے ہے۔
[١٨٥] کافروں سے دوستی منافق کی مثال اور کردار :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنانا یا سمجھنا منافقت کی واضح علامت ہے۔ یہ لوگ کافروں کے ساتھ میل جول رکھ کر ان کے نزدیک مقبول بننا چاہتے ہیں۔ حالانکہ نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے ''دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا'' والی بات بن جاتی ہے ایسے منافق، مسلمانوں کی نظروں سے بھی گر جاتے ہیں اور کافروں کی نظروں میں بھی ذلیل ہی رہتے ہیں اور ہر جگہ سے اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں اور جو شخص ہر حال میں ایک ہی گروہ سے منسلک رہے وہ دشمن کی نظروں میں بھی کم از کم قابل اعتماد ضرور ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلم میں اسی مضمون کی ایک حدیث بھی وارد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی مثال بکریوں کے دو گلوں کے درمیان پھرنے والی بکری کی سی ہے جو کبھی اس گلے میں جاتی ہے اور کبھی اس گلے میں۔‘‘ (مسلم، کتاب صفۃ المنافقین و احکامھم) یہ بات بھی قابل غور ہے کہ منافق لوگ کافروں سے میل جول اس لیے رکھتے ہیں کہ ان کے ہاں وہ معتبر، مقبول اور معزز بن سکیں۔ لیکن اگر اللہ ان کافروں کو ہی، جن کے ہاں یہ عزت تلاش کر رہے ہیں ذلیل کر دے تو انہیں عزت کہاں سے ملے گی۔