مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ
نہ اس کے کام اس کا مال آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا۔
[٢] ابو لہب کا جنگ بدر میں شامل نہ ہونے کا منصوبہ :۔ مال کی ہوس اور بخل مل کر ایک تیسری صفت پیدا کرتے ہیں اور وہ ہے بزدلی۔ جب جنگ بدر کے لیے بھرتی کا اعلان عام ہوا تو ابو لہب اس سے فرار کی راہیں سوچنے لگا۔ ایک شخص سے اس نے چار ہزار درہم قرضہ لینا تھا جس کے ملنے کی اسے کوئی توقع نہ تھی۔ کیونکہ وہ شخص مفلس تھا۔ ابو لہب نے اس سے سودابازی کی کہ اگر وہ اس کی جگہ جنگ بدر میں شریک ہوجائے تو وہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ اس طرح ابو لہب نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ڈوبے ہوئے قرضہ کی وصولی بھی ہوگئی اور جنگ سے بچاؤ کا مقصد بھی حاصل ہوگیا۔ جنگ بدر میں قریشیوں کی شکست فاش کی خبر سن کر اسے اتنا صدمہ ہوا کہ بیمار پڑگیا۔ ذلت کی موت :۔ ساتویں دن یہ بیماری چیچک کی شکل اختیار کرگئی تو اسے اپنی ساری عمر کی کمائی برباد ہوتی نظر آنے لگی کیونکہ اب اسے اپنی موت کا یقین ہوچکا تھا۔ چھوت کی وجہ سے اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا۔ بالآخر وہ نہایت بے کسی کی موت مرا۔ مرنے کے بعد بھی اس کا کوئی بیٹا اس کے قریب نہ گیا۔ تین دن تک اس کی لاش بے گوروکفن گلتی سڑتی رہی۔ پھر جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو انہوں نے ایک حبشی کو کچھ معاوضہ دیا کہ وہ ایک گڑھا کھود کر اس میں لاش کو دھکیل دے اور اوپر سے مٹی ڈال دے۔ یا پتھر وغیرہ دور سے پھینک کر لاش کو چھپا دے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں ماکَسَبَ سے مراد اس کی اولاد ہے جیسا کہ احادیث صریحہ سے ثابت ہے۔ اس طرح اللہ کا یہ قول پورا ہوا کہ نہ اس کا مال کام آیا نہ اولاد۔