وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ
اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔
[٣] بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیت نمبر ٤ اور ٥ میں آیت ٢ اور ٣ کے مضمون کا ہی تکرار ہے اور اگر اسے تکرار ہی تسلیم کیا جائے تو بھی یہ تاکید کا فائدہ دیتا ہے۔ تاہم یہ محض تکرار نہیں بلکہ ان میں دو قسم کا فرق ہے۔ ایک یہ کہ پہلی دو آیات میں ''ما'' کو موصولہ اور پچھلی دو آیات میں ''ما'' کو مصدریہ قرار دیا جائے۔ اس صورت میں پچھلی آیات کا معنی یہ ہوگا کہ جو طریق عبادت میں نے اختیار کیا ہے۔ اسے تم قبول نہیں کرسکتے اور جو تم نے اختیار کر رکھا ہے اسے میں نہیں کرسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق عبادت یہ تھا کہ آپ نماز میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے تھے اور اس طریق عبادت سے کافروں کو خاصی چڑ تھی اور اس سے منع بھی کرتے تھے جیسا کہ سورت علق میں ابو جہل اور عتبہ بن ابی معیط سے متعلق کئی واقعات درج کیے جاچکے ہیں۔ اور کافروں کا طریق عبادت یہ تھا کہ گاتے، سیٹیاں اور تالیاں بجاتے، کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ آپ بھلا ان کا یہ طریق عبادت اختیار کرسکتے تھے۔؟ اور اگر بعد کی آیات میں بھی ''ما'' کو موصولہ ہی سمجھا جائے تو بھی دو فرق واضح ہیں۔ ایک یہ کہ پہلی آیت میں لاَاعْبُدُ آیا ہے اور بعد کی آیات میں لاَاَنَا عَابٍدٌ اور ظاہر ہے کہ جو تاکید لاَاَنَا عَابِدٌ (یعنی میں کسی قیمت پر عبادت کرنے والا نہیں) میں پائی جاتی ہے وہ لاَاَعْبُدُ میں نہیں پائی جاتی اور دوسرا فرق یہ ہے کہ پہلی آیات میں ماتَعْبُدُوْنَ (یعنی جنہیں تم آج کل پوجتے ہو) ہے۔ اور بعد والی آیات میں ماعَبَدْتُمْ صیغہ ماضی میں ہے یعنی جنہیں تم پہلے پوجتے رہے یا تمہارے آباء واجداد پوجا کرتے تھے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ مشرک اپنی حسب پسند اپنے معبودوں میں تبدیلی کرلیا کرتے تھے۔ جو چیز فائدہ مند نظر آئی یا جو خوبصورت سا پتھر نظر آیا اسے اٹھا کر معبود بنا لیا اور پہلے کو رخصت کیا۔