إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ
بلاشبہ ہم نے تجھے کوثر عطا کی۔
[١] کو ثرکے مختلف مفہوم اور مختلف پہلو :۔ کَوْثَر۔ کَثُرَ سے مشتق ہے جس میں بہت مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اہل لغت نے اس کا معنی خیر کثیر لکھا ہے اور بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ کوثر بہشت میں ایک نہر کا نام ہے جو آپ کو عطا کی گئی۔ چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کو اونگھ آگئی۔ اٹھے تو تبسم فرمایا۔ اور تبسم کی وجہ یہ بتائی کہ ابھی ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی۔ پھر یہی سورت کوثر پڑھی اور فرمایا جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کیا :’’اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں‘‘ فرمایا : وہ ایک نہر ہے جو اللہ نے مجھے بہشت میں دی ہے۔ نیز اس سلسلے میں درج ذیل احادیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کے قصہ میں فرمایا : میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے تھے۔ میں نے جبریل سے پوچھا : یہ نہر کیسی ہے؟ اس نے جواب دیا : ’’یہ کوثر ہے‘‘ (جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی) (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا کہ’’ کوثر سے کیا مراد ہے؟‘‘ انہوں نے کہا : کوثر ایک نہر ہے جو تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملی ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے ہیں وہاں ستاروں کی تعداد جتنے آبخورے رکھے ہیں۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کوثر سے ہر وہ بھلائی مراد ہے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی۔ ابو بشیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ :’’لوگ تو کہتے ہیں کہ کوثر جنت میں ایک نہر کا نام ہے‘‘ سعید نے جواب دیا کہ : ’’جنت والی نہر بھی اس بھلائی میں داخل ہے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عنایت فرمائی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) علاوہ ازیں کوثر سے مراد حوض کوثر بھی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت کے دن میدان محشر میں عطا کیا جائے گا۔ جس دن سب لوگ پیاس سے انتہائی بے تاب ہوں گے اور ہر شخص العطش العطش پکار رہا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حوض پر بیٹھ کر اہل ایمان کو پانی پلائیں گے اور جس خوش قسمت کو اس حوض کوثر کا پانی میسر آجائے گا اسے قیامت کا سارا دن پھر پیاس نہیں لگے گی اور اس سلسلے میں اتنی احادیث صحیحہ وارد ہیں جو تواتر کو پہنچتی ہیں۔ اوپر جو کچھ ذکر ہوا اس خیر کثیر کا تعلق تو اخروی زندگی سے ہے۔ دنیا میں بھی آپ کو خیر کثیر سے نوازا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت دی گئی اور قرآن جیسی عظیم نعمت دی گئی جس نے ایک وحشی اور اجڈ قوم کی ٢٣ سال کے مختصر عرصہ میں کایا پلٹ کے رکھ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مشن کو اپنے جیتے جی پوری طرح کامیاب ہوتے دیکھ لیا۔ عرب میں کفر و شرک کا کلی طور پر استیصال ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ایسی جماعت چھوڑی جو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام دنیا پر چھاگئی۔