الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ
وہ جس نے انھیں بھوک سے ( بچا کر) کھانا دیا اور خوف سے (بچا کر) امن دیا۔
[٣] قریش مکہ پر اللہ کے احسانات :۔ مکہ اور اس کے آس پاس کا تمام علاقہ یا پہاڑی ہے یا ریگستانی۔ جہاں کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی بلکہ پورے علاقہ حجاز کا یہی حال تھا۔ لوگوں کا عام پیشہ بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالنا تھا۔ یا پھر لوٹ مار اور ڈاکہ زنی۔ عرب قبائل تجارتی قافلوں کو بھی لوٹ لیتے تھے اور ایک دوسرے کو بھی۔ اس بدامنی اور رہزنی سے صرف قریش بچے ہوئے تھے اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے انہیں عرب بھر میں عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ رہزن قبیلے ان کے تجارتی قافلہ سے تعرض نہیں کرتے تھے، بلکہ جس قافلے کو قریش پروانہ راہداری دے دیتے وہ بھی محفوظ سفر کرسکتے تھے۔ اور قریش کا وطن مکہ تو ویسے ہی امن والا شہر تھا اور لوگ یہیں آکر پناہ لیتے تھے۔ قریش کے قافلوں سے راستہ میں جگاٹیکس بھی وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ قریش کے بدامنی سے محفوظ ہونے کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی شخص کبھی نادانستہ کسی قریش پر حملہ آور ہوتا اور وہ صرف اتنا کہہ دیتا کہ انا حرمی تو حملہ آور کے اٹھے ہوئے ہاتھ وہیں رک جاتے تھے۔ قریش مکہ کو دوسرے قبائل عرب پر جو سیاسی اور معاشی تفوق حاصل تھا اس کی وجہ محض کعبہ کی تولیت تھی۔ جسے تمام قبائل عرب اللہ کا گھر سمجھتے تھے۔ اس اللہ کے گھر میں ٣٦٠ بت رکھے ہوئے تھے۔ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن توڑا تھا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ یہ سارے بت صرف قریش کے نہیں تھے بلکہ تمام قبائل عرب اپنے اپنے بت کا ایک مثنیٰ بیت اللہ میں بھی لا کر رکھ دیتے تھے اور یہ قریش کی مہربانی تھی کہ کسی قبیلہ کو اپنا بت بیت اللہ میں رکھنے دیں یا نہ رکھنے دیں۔ کیونکہ بیت اللہ کے متولی یہی لوگ تھے۔ پھر اگر کوئی قبیلہ قریش مکہ سے کوئی ناروا سلوک کرتا تو قریش اس قبیلہ کے بت کی گردن مروڑ سکتے تھے۔ اسے توڑ پھوڑ بھی سکتے تھے اور کعبہ سے باہر بھی پھینک سکتے تھے۔ بالفاظ دیگر قبائل عرب کعبہ میں اپنے بت اس لیے رکھتے تھے کہ ان کا اور ان کے خدا کا نام بلند ہو اور قریش اس لیے رکھ لیتے تھے کہ ان قبائل کے خدا ہمارے پاس بطور یرغمال رہیں گے۔ یہ تھی وہ اصل وجہ جس کی بنا پر دوسرے قبائل قریشیوں کا احترام کرنے پر مجبور تھے۔ اور کسی کو ان کے تجارتی قافلوں کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ اور اسی بت پرستانہ نظام کی بدولت قریش مکہ کئی طرح کے فائدے اٹھا رہے تھے۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان بتوں اور اس بت پرستانہ نظام کے خلاف صدا بلند کی تو قریش نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ اگر ہم تمہاری بات مان لیں تو پھر تو ہم زمین سے اچک لیے جائیں گے۔ ہمارے تجارتی قافلے بھی لوٹ مار کی زد میں آجائیں گے۔ قبائل عرب میں جو ہمارا احترام اور عزت کی جاتی ہے وہ سب کچھ خاک میں مل جائے گا اور ہمارے سیاسی تفوق کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔ ان حالات میں ہم تمہاری باتوں کو کیونکر قبول کرسکتے ہیں؟ تو قریش کے اس اعتراض کے اللہ تعالیٰ نے پانچ جواب دیئے تھے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے سورۃ ق کے حواشی ٧٨ تا ٨٥) علاوہ ازیں تھوڑی مدت پہلے ابرہہ نے کعبہ پر چڑھائی کی تو اللہ نے اس کے لشکر کو برباد کردیا تھا۔ اس واقعہ سے اہل عرب کے دلوں میں قریش کا عزت و احترام اور بھی بڑھ گیا تھا۔ اسی عزت و احترام کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ان کے تجارتی قافلے ہر طرح کی لوٹ مار اور جگا ٹیکس سے محفوظ سفر کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں کثیر منافع حاصل ہوجاتا تھا۔ اتنا زیادہ جتنا کسی دوسرے تجارتی قافلے کو ہونا ناممکن تھا۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ دوسرے عرب قبائل تو بھوکوں مر رہے تھے جبکہ قریش نہایت آسودہ حالی اور امن و چین کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قریش پر اپنے انہیں احسانات کا ذکر کرکے فرمایا کہ ان احسانات کا نتیجہ تو یہی ہونا چاہیے کہ تم صرف اکیلے پروردگار کی جو اس کعبہ کا مالک ہے عبادت کرتے۔ مگر تم ایسے احسان فراموش ثابت ہوئے ہو کہ اس کے ساتھ اپنے دوسرے معبودوں کو بھی شریک بنالیتے ہو۔