فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ
تو لیکن وہ شخص جس کے پلڑے بھاری ہوگئے۔
[٥] موازین کے مختلف معنی اور میزان الاعمال کی صورتیں : اس آیت میں نفخۂ صور ثانی کے بعد میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا جارہا ہے۔ جبکہ لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جارہا ہوگا۔ مَوَازِیْنُ کا واحد موزون بھی ہے اور میزان بھی۔ اور ان دونوں کی جمع موازین آتی ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو مطلب ہوئے۔ ایک یہ کہ صرف موزون یا کچھ وزن رکھنے والی باتوں کو ہی تولا جائے گا۔ اور اللہ کے نزدیک وزن دار یا قابل قدر باتیں صرف نیک اعمال ہیں اور ان کے ساتھ ایمان ہونا بھی شرط اول ہے۔ کیونکہ کافروں کے نیک اعمال کا بھی وزن نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ سورۃ کہف کی آیت نمبر ١٠٥ میں فرمایا کہ ﴿فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا ﴾ یعنی ہم ان کے اعمال کو سرے سے تولیں گے ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ میزان کا معنی ترازو بھی ہے۔ اور وہ بوجھ یا وزن بھی جو ترازو کے کسی پلڑے میں تلنے کے لیے رکھا جائے اور ترازو کے دونوں پلڑوں میں سے ہر ایک پلڑا بھی۔ اس لحاظ سے یہ مطلب ہوگا کہ جس شخص کی نیکیوں کا پلڑا وزن دار یا بھاری ہوگیا تو ایسے لوگ ہی کامیاب سمجھے جائیں گے اور وہ اس روز خاطر خواہ عیش و آرام میں رہیں گے۔ واضح رہے کہ اعمال کے اوزان پر دو باتیں نہایت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ ایک یہ کہ کسی شخص نے یہ عمل کس نیت سے کیا تھا ؟ اور دوسرے یہ کہ اس میں خلوص اور محض رضائے الٰہی کا حصہ کتنا ہے۔ مثلاً نماز ہی کو لیجیے۔ نماز منافق بھی ادا کرتا ہے اور مومن بھی۔ لیکن ان کے ایک ہی جیسے عمل کے وزن میں زمین و آسمان جتنا بھی فرق ہوسکتا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص محض رضائے الٰہی کی خاطر خلوص نیت کے ساتھ ایک مسکین کو کھانا کھلاتا ہے۔ دوسرا بھی یہی کام کرتا ہے لیکن مسکین سے کوئی بیگار لینا چاہتا ہے یا اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں میں اس کی مسکین پروری کا چرچا ہو تو ان دونوں کے اس ایک جیسے عمل کے وزن میں بہت فرق ہوگا۔ اللہ چونکہ لوگوں کی نیتوں اور دل کی سب باتوں سے واقف ہے۔ لہٰذا اعمال کا وزن نہایت انصاف پر مبنی ہوگا۔