سورة النسآء - آیت 128

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے کسی قسم کی زیادتی یا بے رخی سے ڈرے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح کی صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے، اور تمام طبیعتوں میں حرص (حاضر) رکھی گئی ہے اور اگر تم نیکی کرو اور ڈرتے رہو تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پورا باخبر ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦٧] اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ زوجین کا باہمی سمجھوتہ :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت کا مطلب یہ بیان فرماتی ہیں کہ مثلاً ایک شخص کے پاس عورت ہو جس سے وہ کوئی میل جول نہ رکھتا ہو اور اسے چھوڑ دینا چاہے اور عورت کہے کہ اچھا میں تجھے اپنی باری یا نان و نفقہ معاف کردیتی ہوں (مگر مجھے طلاق نہ دے) یہ آیت اس باب میں اتری۔ (بخاری، کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں طلاق نہ دے دیں، تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’مجھے طلاق نہ دیجیے اپنے پاس ہی رکھیے اور میں اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیتی ہوں‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ گویا میاں بیوی جس شرط پر بھی صلح کرلیں وہ جائز ہے۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) [١٦٩] یہاں لالچ سے مراد صرف مال و دولت کا لالچ نہیں بلکہ اس میں تمام مرغوبات نفس شامل ہیں جیسا کہ حدیث نمبر ٢ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی اگر عورت اپنے خاوند کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھے گی تو یقیناً مرد کا دل بھی نرم ہوجائے گا اور صلح کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ [١٧٠] یعنی اگر تم بغیر کسی لالچ کے محض اللہ سے ڈر کر اپنی بیوی سے بہتر سلوک کرو اور اسے طلاق نہ دو تو اللہ سے یقیناً تمہیں اس احسان کا بدلہ مل جائے گا۔