سورة البينة - آیت 5

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧] دین قیم کے تین اہم ارکان :۔ دین قیم بمعنی ایسا مستحکم اور قائم دین جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزمان تک ایک ہی رہا ہے۔ اس دین کے اہم اجزاء تین باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ اکیلے ہی کو خالق و مالک سمجھا جائے۔ اس کے ساتھ کسی بھی نوعیت کا شرک نہ کیا جائے۔ اس کے حکم اور قانون کو سب سے بالاتر سمجھا جائے اور اس کے قانون اور حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے حکم یا قانون کی پروا نہ کی جائے۔ اکیلے اسی کی عبادت کی جائے اور یکسو ہو کر کی جائے۔ دوسری یہ کہ نماز کو ٹھیک طریقے سے باقاعدگی کے ساتھ ہمیشہ ادا کیا جائے اور تیسری یہ کہ اپنے اموال میں سے زکوٰۃ ادا کی جائے۔ واضح رہے کہ نماز اور زکوٰۃ کو ٹھیک طور پر اور باقاعدگی کے ساتھ وہی ادا کرسکتے ہیں جو عقیدہ آخرت پر ایمان رکھتے ہوں۔ دوسرے نہیں کرسکتے۔ منافق لوگ بھی نماز اور زکوٰۃ ادا کیا کرتے تھے۔ مگر نمود و نمائش اور دکھلاوے کے لیے اور اپنی طبیعت پر بوجھ سمجھ کر۔ یہی تینوں باتیں اسلام کے تین اہم ابتدائی ارکان ہیں۔ روزہ اور حج بھی سابقہ امتوں پر فرض تھے مگر اختصار کی وجہ سے اکثر مقامات پر ان کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ جیسے سورۃ بقرہ کی ابتدا میں متقین کی تعریف میں بھی انہیں تین اہم ارکان کا ذکر ہے۔ روزہ اور حج کا نہیں ہے۔ اور یہی تین باتیں کسی کو ایک اسلامی مملکت میں شہریت کے حقوق عطا کرتی ہیں۔ جیسے سورۃ توبہ کی آیت نمبر ١١ میں فرمایا :’’پھر اگر یہ مشرک شرک سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو تمہارے دینی بھائی ہیں‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا : ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اگر وہ یہ شرائط تسلیم کرلیں تو ان کی جانیں مجھ سے محفوظ ہوجائیں گی۔ الا یہ کہ وہ اسلام کے کسی حق کے تحت اس حفاظت سے محروم کردیئے جائیں۔ رہا ان کے باطن کا معاملہ تو وہ اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الامربقتال الناس)