أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ
کیا ہم نے تیرے لیے تیرا سینہ نہیں کھول دیا۔
[١] شرح صدر کے دو مفہوم :۔ شرح صدر کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی بات، نظریہ، عقیدہ یا معاملہ کی انسان کو پوری طرح سمجھ آجائے۔ اس میں کوئی شک و شبہ یا ابہام باقی نہ رہے اور انسان کو جو کچھ سمجھ میں آئے اس پر اسے یقین اور اطمینان حاصل ہوجائے جیسے فرمایا : ﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ ﴾(۱۲۶:۲)’’یعنی جس شخص کو اللہ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے‘‘ یعنی اسے یہ یقین واطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ اسلام کے پیش کردہ عقائد ہی درست ہیں۔ اور اس لفظ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جس کام کو انسان ایک بہت بڑا مشکل کام سمجھ رہا ہو اور اس کام کو سرانجام دینا اسے گرانبار محسوس ہو رہا ہو اس کام کے کر گزرنے اور اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے اس کی طبیعت آمادہ ہوجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت دے کر حکم دیا کہ اب فرعون کے ہاں جاکر اسے میرا پیغام دو۔ تو اس وقت آپ نے دعا فرمائی۔ ﴿ قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ﴾ (۲۰:۲۵۔۲۶)’’یعنی اے میرے پروردگار میرا سینہ کھول دے اور میرے لیے میرا یہ (مشکل) کام آسان بنا دے‘‘ اس آیت میں سوالیہ انداز بیان اختیار کیا گیا ہے کہ جس سے اس کے پس منظر پر روشنی پڑتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی دعوت کا کام شروع کیا تو وہی قوم جو آپ کے گن گاتے تھکتی نہ تھی اور آپ ساری قوم کے محبوب فرد تھے، آپ کی دشمن بن گئی۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تکلیف دہ بھی تھی اور حیران کن بھی لیکن ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام اور اسلام لانے والے مسلمانوں کو اتنا عظیم حوصلہ عطا فرما دیا کہ وہ کفار مکہ کے مظالم سہنے کے باوجود ان کے آگے نہ جھکتے تھے اور نہ دبتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر حوصلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کیا گیا کیونکہ کفار کا اصل ہدف آپ ہی کی ذات مبارکہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا، آپ کی رسالت کا، اللہ کی آیات کا اور آپ کے کلام کا مذاق و استہزاء کفار کا دلچسپ مشغلہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی ایذاؤں کی انتہا اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ مکی دور میں کافروں نے آپ پر سات مرتبہ قاتلانہ حملے کیے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ مائدہ آیت ٦٧ کا حاشیہ) علاوہ ازیں جب بھی کسی مسلمان پر ظلم و ستم ہوتا تو اس دکھ میں بھی آپ برابر کے شریک ہوتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ احسان یاد دلایا ہے کہ کیا تمہیں ہم نے ان مصائب کو برداشت کرنے کے لیے چٹان جیسا حوصلہ نہیں عطا فرما دیا ؟ مزید تفصیل کے لیے میری کتاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ پیکر صبرو ثبات“ ملاحظہ کیجیے۔