وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ
اور اس نے تجھے راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھا دیا۔
[٦] آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن ہی سے کفر و شرک سے بیزار تھے۔ جھوٹ، بددیانتی اور اخلاق رذیلہ سے آپ کو طبعاً نفرت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مالک و خالق حقیقی کو ٹھیک طرح پہنچانتے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گمراہی میں پڑے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کے اس تاریک دور میں پانچ چھ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم خیال اور ہمنوا تھے جن میں سرفہرست سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے۔ یہ لوگ بھی شرک اور دوسری معاشرتی برائیوں سے سخت متنفر تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس معاملہ میں سب سے زیادہ متفکر رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تن تنہا پہاڑوں کی غاروں میں چلے جاتے۔ وہاں جاکر مالک حقیقی سے لو لگاتے اور سوچتے رہتے کہ وہ کون سا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے جس سے مخلوق خدا کو کفر و شرک کی گمراہیوں سے بچایا جاسکتا ہے؟ چنانچہ آپ اسی غرض سے غار حرا میں مقیم تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی بار جبریل امین کا نزول ہوا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دیرینہ تڑپ کو پورا کرنے کی راہ ہموار کردی جو ایک عرصہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ میں موجزن تھی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان اور نعمت کا ذکر فرمایا ہے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں ضالاً کا لفظ استعمال ہوا اور ضَلَّ کا لفظ عربی زبان میں مندرجہ ذیل چھ معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ضلّ کا مفہوم :۔ ١۔ ضَلَ ّکا بنیادی معنی راستہ کھو دینا یا گم کردینا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی ایسے مقام تک جا پہنچا ہے جہاں آگے یا تو کئی راستے ہوجاتے ہیں یا کسی ایک راستہ کا بھی نشان گم ہوجاتا ہے اور وہ وہاں یہ سوچنے لگتا ہے کہ اب کیا کرے؟ وہیں کھڑے کا کھڑا رہ جائے؟ یا اگر کوئی راستہ اختیار کرے تو کون سی راہ اختیار کرے؟ کسی شخص کے اس طرح راہ گم کردینے کو لفظ ضَلَّ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس آیت میں ضالا کایہی مفہوم ہے۔ آپ ضالّ کن معنوں میں تھے؟۔ ٢۔ پھر کبھی انسان اسی حیرانگی کے عالم میں کسی غلط راستے پر بھی جا پڑتا ہے۔ اب اگر یہ غلط راستے پر پڑنا غیر ارادی طور پر اور سہواً ہو تو ضَلَّ کے معنی بھولنا ہوں گے۔ جیسے فرمایا : ﴿اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰیھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰیہُمَا الْاُخْرٰی ﴾ (۲۸۲:۲)یعنی اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ ٣۔ اور اگر غلط راستے پر پڑنا اور راہ راست سے ہٹ جانا ارادہ کے ساتھ یعنی عمداً ہو تو یہ گناہ ہے جیسے فرمایا : ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِیْنَ﴾(١: ٧) یعنی نہ تو ان لوگوں کی راہ دکھانا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ گمراہوں گی۔ اور احادیث میں یہ صراحت ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدی بن حاتم کو فرمایا تھا کہ ﴿مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ﴾ الفاتحہ سے مراد یہود اور ﴿ضَالِّیْنَ﴾ سے مراد نصاریٰ ہیں جو عقیدہ تثلیث کے موجد اور قائل تھے۔ ٤۔ اور کبھی یہ لفظ کسی چیز کے اپنے وجود کو کھو کر دوسری چیز کے مل جانے کے معنوں میں آتا ہے جیسے کافر کہتے ہیں کہ ﴿ وَقَالُوْٓا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ڛ بَلْ ہُمْ بِلِقَاۗیِٔ رَبِّہِمْ کٰفِرُوْنَ﴾ یعنی جب ہم زمین میں مل کر زمین ہی بن جائیں گے تو کیا از سر نو پیدا ہوں گے؟ ٥۔ اور کبھی یہ لفظ ایسے کام کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو رہا ہو یعنی جس غرض کے لیے کوئی کام کیا جائے وہ پوری نہ ہو۔ جیسے فرمایا : ﴿اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ﴾(۱۰۴:۱۸) یعنی وہ لوگ جن کی سعی دنیا میں برباد ہوگئی اور وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ ٦۔ اور کبھی یہ لفظ کسی کی محبت میں فریفتہ ہونے پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا : ﴿ تَاللّٰہِ اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ ﴾ یعنی اللہ کی قسم! تم تو یوسف کی اسی پرانی محبت میں (ابھی تک) مبتلا ہو۔ اس آیت میں پہلا اور چھٹا دونوں معنی استعمال ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں معنی آپ کی نبوت سے پہلی زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں اور ترجمہ میں پہلا معنی اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اس لفظ کا بنیادی معنی وہی ہے۔