وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ
اور رات کی جب وہ چھا جائے!
[١] سَجٰی کا لغوی مفہوم :۔ ﴿سَجٰی﴾ یعنی رات کا سنسان اور خاموش ہونا، نیز اس لفظ میں دوسری چیزوں کو چھپا لینے کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ خواہ یہ تصور ظاہری طور پر ہو جیسے سَجَی الْمَیّت بمعنی میت پر چادر ڈال کر اسے چھپا دینا یا معنوی طور پر ہو جیسے سَج معائب اخیک بمعنی اپنے بھائی کے عیبوں کو چھپاؤ۔ گویا اس لفظ میں پرسکون ہونے اور چھپانے کے دونوں معنی پائے جاتے ہیں۔ یعنی رات کا اتنا حصہ گزر چکا ہو کہ سب لوگ سو چکے ہوں اور تاریکی بھی پوری طرح چھا چکی ہو۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے چاشت کے وقت کی قسم کھائی ہے۔ جب سورج بلند ہوچکا ہوتا ہے اور لوگ اپنے اپنے کام کاج میں مشعول ہوجاتے ہیں۔ اور یہ وقت اس کے بالکل برعکس اور متضاد ہے۔ اور ان دونوں متضاد حالتوں کی قسم کھا کر فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناراض ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چاشت کا وقت تو اللہ کی رحمت کا وقت ہے اور گئی رات کا وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا وقت ہے۔ اس لیے کہ دونوں اوقات کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ اگر ہمیشہ دن ہی رہتا تو یہ بھی لوگوں اور جانداروں کے لیے سخت اذیت کا باعث بن جاتا اور اگر ہمیشہ رات رہتی تو بھی یہی بات تھی۔ اسی طرح وحی کے آنے کے وقت کو اللہ کی رحمت کا وقت اور نہ آنے کے وقت کو اللہ کی ناراضگی کا وقت نہیں قرار دیا جا سکتا۔ وحی کی حالت میں اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لذت و سرور حاصل ہوتا تھا لیکن یہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اتنا اعصاب شکن اور تکلیف دہ ہوتا تھا کہ سردیوں میں بھی آپ کو پسینہ چھوٹ جاتا تھا لہٰذا ضروری تھا کہ وحی کے بعد آپ کو آرام کا وقفہ دیا جائے اور یہ وقفہ ابتداًء زیادہ تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت آہستہ آہستہ اس بار وحی کو برداشت کرنے کے قابل ہوتی گئی تو یہ وقفہ بھی کم ہوتا گیا۔