سورة النسآء - آیت 120

يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ انھیں وعدے دیتا ہے اور انھیں آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انھیں دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦١] مثلاً شیطان کا یہ پٹی پڑھانا کہ توحید کے ہوتے ہوئے باقی سب گناہ معاف ہوجائیں گے اور اس طرح گناہوں پر دلیر بنا دینا یا اولیاء اللہ کی ان کے مریدوں کے حق میں سفارش کرکے چھڑا لینے کے عقیدہ کو پختہ کردینا، یا یہ کہ ابھی کافی زندگی باقی ہے۔ نیک اعمال کے لئے اور توبہ کے لئے ابھی جلدی بھی کیا پڑی ہے۔ ایسے سب وعدے اور امیدیں شیطان انسان کو فریب میں مبتلا رکھنے کے لئے کرتا رہتا ہے۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شیطان انسان کے دل میں بے جا آرزوئیں پیدا کرتا رہتا ہے۔ جن سے انسان کی حرص اور طول امل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جوں جوں ابن آدم بوڑھا ہوتا جاتا ہے اس کی حرص اور خواہشیں جواں ہوتی رہتی ہیں اور یہی دو باتیں تمام گناہوں کا سرچشمہ ہیں۔ طول امل کی وجہ سے انسان کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اسے کسی وقت اس دنیا سے رخصت بھی ہونا ہے۔ اپنی موت سے بھول سے یاد نہیں آتی۔ حالانکہ ایسی آرزوئیں کسی کو ساری عمر نہ حاصل ہوئی ہیں اور نہ ہوں گی۔ ایسی ہی آرزؤں کی تکمیل لئے وہ کئی قسم کے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اور ہوتا رہتا ہے تاآنکہ موت اسے یکدم آکر دبوچ لیتی ہے۔ اور اس کی طویل خواہشات کے سلسلہ کو منقطع کردیتی ہے۔