وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا
اور یقیناً میں انھیں ضرور گمراہ کروں گا اور یقیناً میں انھیں ضرور آرزوئیں دلاؤں گا اور یقیناً میں انھیں ضرور حکم دوں گا تو یقیناً وہ ضرور چوپاؤں کے کان کاٹیں گے اور یقیناً میں انھیں ضرور حکم دوں گا تو یقیناً وہ ضرور اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت بدلیں گے اور جو کوئی شیطان کو اللہ کے سوا دوست بنائے تو یقیناً اس نے خسارہ اٹھایا، واضح خسارہ۔
[١٥٨] شیطانی فریب کی صورتیں :۔ ایسی جھوٹی آرزوئیں جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہ ہو۔ جیسے یہود کا یہ عقیدہ کہ انہیں دوزخ کی آگ چھو ہی نہیں سکے گی۔ ماسوائے ان چند دنوں کے جن میں گؤ سالہ پرستی کی تھی۔ یا جیسے یہ کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ کے چہیتے اور پیارے ہیں لہٰذا ہمیں آخرت میں عذاب نہ ہوگا۔ ایسی جھوٹی آرزوئیں اور عقائد شیطان ہی خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے جس سے انسان گناہوں پر دلیر ہوجاتا ہے اور یہ بات یہودی تک محدود نہیں نصاریٰ اور مسلمان بھی اس معاملہ میں شیطان سے فریب خوردہ ہیں۔ نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے اور مسلمانوں میں سید حضرات کہتے ہیں کہ ہماری خیر سے نسل ہی پاک ہے نیز پیروں کی سفارش کا عقیدہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ پھر یہ آرزوئیں صرف آخرت سے ہی متعلق نہیں ہوتیں، شیطان انسان کو کئی طرح کی دنیوی کامیابیوں، شادمانیوں اور عیش و عشرت کے سبز باغ دکھا کر بسا اوقات اسے گمراہ کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ [١٥٩] جیسا کہ اہل عرب کیا کرتے تھے کہ جب کوئی اونٹنی دس بچے جن لیتی یا جس اونٹ کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہو چکتے تو اسے اپنے دیوتا کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس سے کام لینا حرام سمجھتے اور علامت کے طور پر اس کے کان چیر دیتے تھے۔ [١٦٠] شکل وصورت میں تبدیلی :۔ اس آیت کے بہت سے مفہوم ہیں مثلاً ایک یہ کہ کوئی مرد ایسی شکل و صورت بنائے کہ وہ عورت معلوم ہونے لگے یا کوئی عورت ایسی ہئیت کذائی بنائے کہ وہ مرد معلوم ہو۔ دوسرے یہ کہ بہروپ دھار کر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے۔ تیسرے یہ کہ اپنی ہی شکل و صورت میں اپنی مرضی کے مطابق ایسی قطع و برید کی جائے جس سے وہ خوبصورت بن سکے۔ داڑھی منڈانا بھی اس ضمن میں آتا ہے۔ چوتھے یہ کہ کسی مخلوق سے وہ کام لیا جائے جس کے لئے اللہ نے اسے پیدا نہیں کیا۔ مثلاً لڑکوں سے لواطت کرنا یا جس کام کے لئے اللہ نے کسی مخلوق کو پیدا کیا ہے، اس سے وہ کام نہ لینا۔ مثلاً مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا، برتھ کنٹرول، منصوبہ بندی، اسقاط حمل سے انسانی نسل کو روکنا، خصی کرنا وغیرہ۔ عورتوں کو گھر کے میدان سے باہر لاکر کھیتوں اور معیشت کے میدان میں لانا۔ اور ایسے کام دراصل فطرت کے خلاف جنگ ہے جس کے نتائج ہمیشہ برے ہی نکلتے ہیں اور فطرت کے خلاف جنگ میں بالآخر انسان ہی ناکام رہتا ہے۔ اور یہ سب پٹیاں شیطان ہی پڑھاتا ہے۔ اور ہر زمانہ میں اس کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔