وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا
اور نفس کی اور اس ذات کی جس نے اسے ٹھیک بنایا!
[٧] انسان فطرتاً نیک اور موحد پیدا کیا گیا :۔ یعنی نفس کو پیدا کرنے کے بعد اس میں وہ تمام ظاہری اور باطنی قوتیں رکھ دیں جن سے کام لے کر وہ ایسے سب کام سرانجام دے سکے جن کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ سَوّٰھَا کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ انسان پیدائشی طور پر نہ گنہگار پیدا ہوا ہے جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے اور اسی غرض سے انہوں نے کفارہ مسیح کا عقیدہ اختراع کیا اور نہ ہی انسان شرپسند پیدا ہوا ہے جیسا کہ بعض گمراہ فرقوں کا خیال ہے۔ بلکہ انسان کی فطرت میں راستی اور سچائی ودیعت کی گئی ہے۔ جھوٹ بولنا وہ بعد میں سیکھتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کے جذبہ سے مل جل کر رہنا چاہتا ہے، دوسروں کی بدخواہی اور ایذا پہنچانا وہ بعد میں سیکھتا ہے۔ اس کی فطرت میں توحید ہے، شرک کرنا وہ بعد میں سیکھتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) (مزید تفصیل کے لیے سورۃ بقرہ آیت نمبر ٢١٣ پر حاشیہ نمبر ٢٨١ ملاحظہ فرمائیے)