ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ
پھر ( یہ کہ) ہو وہ ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو رحم کرنے کی وصیت کی۔
[١٢] اصحاب الیمین کے لئے کونسی صفات ضروری ہیں :۔ اس آیت سے بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ انسان کتنے ہی اچھے اعمال بجا لائے جب تک ایماندار نہ ہو، اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اس کے اعمال آخرت میں کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ برباد ہوجائیں گے۔ دوسری یہ کہ صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں بلکہ باقی ایمانداروں کا ساتھ دینا بھی ضروری ہے تاکہ اسلام کو غالب کرنے اور غالب رکھنے کے راستہ میں جو مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کی اجتماعی طور پر مدافعت کی جائے۔ تیسری یہ کہ اسلام کی نظر میں اجتماعی زندگی ہی پسندیدہ ہے۔ تاکہ اسلامی معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے کے دکھ درد اور رنج و راحت میں شریک ہو سکیں۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط بنائے رکھتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو قینچی کرلیا۔ (بخاری کتاب الادب باب تعاون المومنین بعضھم بعضاً) ٢۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’آپس میں بغض حسد نہ کرو۔ ترک ملاقات نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کرے۔‘‘ بخاری کتاب الادب باب ما ینتہی عن التحاسد) چوتھی یہ کہ مسلمان صرف خود ہی صبر نہیں کرتے بلکہ سب ایک دوسرے کو بھی صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اور صبر کا مفہوم بڑا وسیع ہے۔ ایک مسلمان کی پوری زندگی صبر ہی صبر ہے۔ اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بھی صبر ہے اور احکام شریعت پر ثابت قدم اور ان کا پابند رہنا بھی صبر ہے۔ پانچویں یہ کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو ایک دوسرے پر رحم کرنے کی تاکید بھی کرتے رہتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ١۔ جو شخص دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر (اللہ کی طرف سے) بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔ (بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبہائم) اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں۔ ’’تم اس مخلوق پر رحم کرو جو زمین میں ہے تم پر وہ ذات رحم کرے گی جو آسمانوں میں ہے۔‘‘ ٢۔ مسلمان ایک دوسرے پر رحم کرنے' دوستی رکھنے اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی طرح ہیں' جب ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سب اعضاء بے چین ہوجاتے ہیں' نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جاتا ہے۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ ایک دفعہ ایک آدمی سفر کر رہا تھا اسے سخت پیاس لگی۔ پھر ایک کنواں ملاتو اس میں اترا اور پانی پیا۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ کتے کو پیاس کی وجہ سے ایسی ہی تکلیف ہوگی جیسے مجھے ہوتی ہے۔ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھر کر اور اسے منہ میں تھام کر اوپر چڑھا پھر کتے کو پانی پلایا۔ اللہ نے اس کے کام کی قدر کی اور اس کو بخش دیا۔ لوگوں نے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول! کیا ہمیں جانوروں پر رحم کرنے میں بھی ثواب ملے گا‘‘؟ فرمایا ’’ہر تازہ کلیجے والے پر ثواب ملے گا۔‘‘ (حوالہ ایضاً) ٤۔ آپ ایک دفعہ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک اعرابی (گنوار) نماز میں ہی کہنے لگا : ’’اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحم کر اور ہمارے علاوہ اور کسی پر نہ کر‘‘ آپ نے جب نماز سے سلام پھیرا تو اس بدو سے فرمایا’’ارے تم نے تو کشادہ کے آگے بند لگادیا‘‘ اور کشادہ سے آپ کی مراد اللہ کی رحمت تھی۔ (حوالہ ایضاً)