سورة النسآء - آیت 113

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اگر تجھ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً ان کے ایک گروہ نے ارادہ کرلیا تھا کہ تجھے گمراہ کردیں، حالانکہ وہ اپنے سوا کسی کو گمراہ نہیں کر رہے اور تجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا رہے اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا اور اللہ کا فضل تجھ پر ہمیشہ سے بہت بڑا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥١] آپ پر اللہ نے بہت بڑا فضل کیا تھا :۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت یہ تھی کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصل صورت حال سے بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ورنہ اس کے نتائج صرف یہی نہ تھے کہ مجرم بچ جاتا اور ایک بے قصور مجرم قرار پاتا بلکہ اس کے نتائج بڑے دوررس تھے جو عوام الناس کی نظروں میں مسلمانوں کی ساکھ اور ان کے کردار کو مجروح بنا سکتے تھے، ایسے لوگ جو آپ کو بہکا کر اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتے تھے اپنی ہی عاقبت خراب کر رہے تھے۔ اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اور اللہ کے ہاں مجرم وہ تھے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔ مقدمہ میں چالاکی سے دوسرے کا مال ہتھیانا :۔ جو شخص کسی حاکم کو دھوکہ دے کر اپنے حق میں فیصلہ کرا لیتا ہے۔ وہ دراصل خود اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ ان تدبیروں سے وہ فی الواقع اس چیز کا حقدار بن گیا۔ حالانکہ اللہ کے نزدیک حق جس کا ہوتا ہے اسی کا رہتا ہے اور فریب خوردہ حاکم کے فیصلہ سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہی ہوں۔ تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کے دلائل سن کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں تو اس طرح اگر میں اس کے بھائی کے حق سے کوئی چیز اس چرب زبان کے حق میں فیصلہ کر کے دے دوں تو یاد رکھو کہ میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، باب موعظۃ الامام للخصوم) ربط مضمون کے لحاظ سے اس جملہ کا وہی مطلب ہے جو اوپر مذکور ہوا تاہم اس کا حکم عام ہے اور اس کا مطلب ایسے فضائل ہیں جو دوسرے کسی پیغمبر کو بھی نہیں ملے اور وہ فضائل آپ نے خود ان الفاظ میں بتائے ہیں : جابر بن عبداللہ (انصاری) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے پانچ چیزیں ایسی ملی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں ملیں۔ ایک یہ کہ ایک ماہ کی مسافت پر دشمن پر میرا رعب طاری رہتا ہے دوسرا یہ کہ ساری زمین میرے لیے مسجد اور پاک بنائی گئی ہے۔ لہٰذا میری امت کا ہر شخص جہاں نماز کا وقت آئے نماز پڑھ لے تیسرے یہ کہ اموال غنائم میرے لیے حلال ہوئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے جائز نہیں تھے۔ چوتھے یہ کہ شفاعت کبریٰ (قیامت کے دن) ملی اور پانچویں یہ کہ پہلے ہر نبی کس خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جبکہ میں تمام لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب قول النبی جعلت لی الارض مسجدا وطھورا) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مندرجہ ذیل چھ باتیں مذکور ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ باتوں میں دوسرے پیغمبروں پر فضیلت دی گئی ہے مجھے جو امع الکلم عطا کئے گئے۔ یعنی ایسا کلام جس میں الفاظ کم اور معانی بہت ہوں دوسرے دشمن پر رعب سے میری مدد کی گئی تیسرے مجھ پر غنیمتیں حلال کی گئیں۔ چوتھے میرے لیے ساری زمین پاک کرنے والی اور نماز کی جگہ بنائی گئی۔ پانچویں میں تمام لوگوں (جنوں اور انسانوں) کی طرف بھیجا گیا ہوں اور چھٹے مجھ پر نبوت ختم کی گئی۔ (مسلم کتاب المساجد۔ باب المساجد و مواضع الصلٰوۃ)