إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَىٰ
مگر جو اللہ چاہے۔ یقیناً وہ کھلی بات کو جانتا ہے اور اس بات کو بھی جو چھپی ہوئی ہے۔
[٦] جب وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہ تکلف وحی کے الفاظ یاد رکھنے پر زیاد توجہ دیتے تھے اور زبان سے ان الفاظ کی ادائیگی کی کوشش بھی کرتے تھے جس سے آپ کی توجہ بٹ جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ذمہ داری لی اور فرمایا کہ آپ صرف توجہ سے سنا کریں۔ بعد میں بعینہٖ وحی کے الفاظ کو آپ کی زبان سے ادا کروا دینا ہمارا کام ہے۔ نیز یہ وحی کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں محفوظ رہیں گے۔ آپ انہیں بھولیں گے نہیں۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو آپ بھول بھی سکتے ہیں۔ اب اس کو بھولنے کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ آپ ایک دفعہ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اور قراءت کے دوران ایک آیت چھوڑ گئے۔ نماز کے بعد سیدنا ابی بن کعب نے پوچھا : کیا یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں میں بھول گیا تھا۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ۔ باب فی فتح علی الامام فی الصلوٰۃ) اور دوسری صورت وہی ہے جس کا اس حدیث میں بھی ذکر موجود ہے۔ یعنی کوئی آیت ہی منسوخ کردی جائے۔ یہاں بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جو آیات اللہ نے نازل کردیں پھر ان کو منسوخ کرنے اور بھلا دینے کے کیا معنی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں بعض آیات اور احکام ایک مخصوص مدت کے لیے نازل ہوئے۔ بعد میں ان کا باقی رکھنا ضروری نہ رہا۔ جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرائت کے مطابق فما استمتعتم بہ منھن کے آگے الیٰ اجل مسمیٰ کے الفاظ بھی موجود تھے۔ پھر جب متعہ کو مکمل طور پر حرام کردیا گیا تو اس قرات کے یہ الفاظ بھی منسوخ کردیے گئے۔ اور اس قسم کی منسوخی کے متعلق قرآن میں بے شمار آیات ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٠٦، سورۃ رعد کی آیات نمبر ٣٩۔ ٤٠، سورۃ النحل کی آیت نمبر ١٠١، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا احاطہ کرنا اسی کی شان ہے۔ وہ نازل شدہ وحی میں سے اگر یہ مناسب سمجھے کہ اب اس آیت کی ضرورت نہیں رہی تو وہ اسے منسوخ بھی کرسکتا ہے اور اس منسوخی کی آسان شکل یہ تھی کہ جب آپ جبریل سے دور کرتے تو وہ آیت یا اس کے کچھ الفاظ آپ کو بھلا دیئے جاتے تھے۔